Forum
Sharing
-
AuthorPosts
-
February 18, 2022 at 3:00 pm #13365
بانٹنا یاتقسیم کرنا یا شراکت رکھنا: ایک بڑی نعمت ہے اُس پروردگار کی۔ کبھی چھوٹی چھوٹی چیزیں، چھوٹی چھوٹی خوشیاں شئیر کر کے دیکھی ہیں؟ کیوں ہم بڑی خوشیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں؟ کبھی مسکراہٹیں شئیر کر کے دیکھا ہے؟کبھی پستہ کے چند ایک دانوں میں سے کچھ دانے شئیر کر کے دیکھا؟ ایک چھوٹی چاکلیٹ شئیر کر کے دیکھا ہے؟ کبھی کسی کے ساتھ چمچ بانٹا؟ کبھی کسی کے ساتھ کچھ بانٹا بھی ہے؟ــــــــــــــیابس اسی سوچ میں ہیں کہ یہ میرا ہے اور وہ اس کا ہے؟ ــــــــــکیا کبھی ایسا سوچا ہے کہ جو میرا ہے، وہ کسی اور کا بھی ہے؟
اللہ تعالیٰ نے عجیب سی خوشی رکھی ہے اس میں، اعتماد رکھا ہے، عزت رکھی ہےاس میں، خلوص رکھا ہے اس میں، پرواہ رکھی ہے، اس میں محبت رکھی ہے ۔ نبی ﷺ نے شئیر کرنا ہی تو سکھایا تھا، بانٹنا اور تقسیم کرنا تو سکھایا تھا۔
کیوں ہم اس سوچ میں ہیں کہ جو میرا ہے، وہ میرا ہی ہے۔ اور جو اس کا ہے، وہ اسی کا ہی ہے۔ یہ امیروں کے بھی عجیب چونچلے ہیں، اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر شئیر کرنا ہی بھول گئے ہیں۔
بہت ذیادہ دور نہ جائیں ، اپنے والدین کے ہی بچپن کی بات کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اصل میں شئیرنگ کہا کس کو جاتا ہے۔ سالن کی ایک کٹوری شئیر کرنا، چاولوں کی ایک پلیٹ بانٹنا، پھلوں کے کچھ ٹکرے بانٹنا، یہاں تک کہ اپنا وقت بھی شئیر کرنا ـــــــــــ اسی لیے تھوڑے میں بھی سکون تھا، تھوڑے میں بھی برکت تھی، تھوڑے میں بھی خلوص تھا، محبت تھی، اور تھوڑے میں ہی خوشی تھی۔
جبکہ آج تیرا میرا کے چکروں میں ایسے پڑے ہیں کہ بھول بیٹھے ہیں کہ شئیرنگ یعنی کہ بانٹنا بھی کسی احساس کا نام ہے۔ اسی لیے تو لوگوں سے دور ہو رہے ہیں، مادی چیزوں کی حوس ہے، خلوص نہیں ہے، اور یہاں تک کہ سکون بھی نہیں ہےـــــــــــ ذیادہ ہوتے ہوئے بھی اور کی خواہش ہے، شکر ہی نہیں ہے، خواہش ہے سنبھال رکھنے کی۔ اسی لیے تو محبتوں سے محروم ہیں، خوشیوں سے محروم ہیں، سکون سے دور ہیں، یہاں تک کہ چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں لیے گھومتے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں کہ دکھ بھی بانٹے جا تے ہیں۔ ہاں! دکھ بھی بانٹے جاتے ہیں۔ کیسا احساس ہوتا ہے کہ جب کسی کا ہاتھ تھاما جاتا ہے۔ کسی کو حوصلہ دیا جاتا ہے، کسی کی پریشانی کو مخصوص کیا جاتا ہے، دعا کی جاتی ہے، مسئلے کے حل کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔یہ احساس بھی ایک نعمت ہے، کیونکہ انسان اپنے لیے شکر کرنا اور صبر کرنا سیکھتا ہے۔ یہ سب نہ ہو تو انسان تو خود غرض ہو جائے۔ وہ تو قدرت کی بہت ساری نعمتوں سے محروم ہو جائے۔
دکھ اور سکھ پروردگار کی طرف سے ہی تو عطا کردہ ہیں۔ دکھ نہ ہوں تو سکھ کا مزہ نہیں۔ اور سکھ نہ ہوں تو پروردگار کی ذات مبارکہ کو گوارہ نہیں۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ ہی ہے، جو دکھ اور سکھ دئیے ہوئے ہے۔
کیا کبھی ایسا کیا کہ کسی کو پریشانی میں دیکھ کر اپنی ممکن حد تک اس کو حل کرنے کی کوشش کی؟ کسی کی مشکل میں دعا کرنے کی کوشش کی ہے؟ کسی کی بیماری میں عیادت کی ہے؟ ـــــــــــ یا کبھی ایسا محسوس کیا ہے کہ آپ خود تو تکلیف میں ہیں اور کوئی آپ کو ہاتھ تھامے ہوئے ہے، کوئی آپ کو حوصلہ دئیے ہوئے ہے۔ کوئی آپ کی مشکل میں آپ کی مدد کیے ہوئے ہے، کوئی آپ کے لیے دعا کیےہوئے ہے، کوئی سہارا دئیے ہوئے ہےـــــــــــتو جو انسان خود کے لیے محسوس کرتا ہے ، تو اسے بانٹنے کا خیال کیوں نہیں؟
ہاں ! یہ بات سچ ہے کہ کوئی اگر آپ کی تکلیف کو کم نہیں کر سکتا، مگر آپ کی تکلیف میں آپ کا شریک بن سکتا ہے تو جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ زبان سے کیے گئے وار تلوار سے ذیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں ، بالکل اسی طرح زبان سے ادا کیے گئےالفاظ انسان کی تکلیف کے احساس کو کم کر دیتے ہیں۔ مگر آج بدقسمتی سے سب اس احساس کو اس طرح سے بھولے ہوئے ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ ہر کوئی دکھ میں ہے، ہم بھی دکھ میں ہیں، وہ بھی دکھ میں ہوئے تو کیا ہوا۔ ہم بھی پریشانی میں تھے، جب ہماری حل ہو گئی تو ان کی بھی ہو جائے گی۔ انسان آج دوسرے انسان کے لیے الفاظ تو کیا وقت کا سہارا بھی نہیں دینا چاہتا۔ بہانے بناتے ہیں،اپناتے نہیں ہیں۔
جس طرح بیماری میں دوا کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح احساسات کے لیے اچھے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں اس بات کو نظرا نداز مت کیجیے کہ انسان کی نیت بھی اہم ہے۔ کیونکہ ایک ذات ایسی ہے، جو سب دیکھ رہی ہے۔ وہ آپ کی نیتوں کو بھی اچھے سے جانتی ہے۔ آپ کے الفاظ اسی وقت اثر کرتے ہیں جب انسان کی نیت خالص ہوتی ہے۔ آپ کا احساس کرنا بھی تب معنی رکھتا ہے، جب آپ کسی کے ساتھ مخلص ہوں۔
بانٹنا سیکھیے، محبتیں سمیٹیے، دعا لیجیےاور سکون میں رہیے ۔00-
This topic was modified 3 years, 2 months ago by
eman.
-
This topic was modified 3 years, 2 months ago by
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.