Forum
ڈی جی آئی ایس پی آر کے نام (مسئلہ نمبر 1 اور حل) ۔
-
AuthorPosts
-
May 8, 2019 at 4:26 pm #11542
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے نام
29 اپریل 2019
کی پریس کانفرس میں میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ مسائل تو سب کو پتا ہیں، ایک رکشے والا بھی مسائل جانتا ہے اور اس پر بات کر سکتا ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے حل تلاش کیے جائیں۔ ماہر بلائے جائیں جو ان کے حل بتائیں۔ تاکہ مسائل سے نمٹا جا سکے۔
میں ایک۔پاکستانی شہری ہوںے کے ناطے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتی ہوں، جس کی اجازت مجھے میری ریاست دیتی ہے۔
١ مسئلہ نمبر
اساتذہ پر بوجھ اور بچوں کی کم تربیت
پاکستان میں سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔ میں چونکہ ایک پرائیویٹ ادارے میں سیکنڈری کی ٹیچر ہوں، اس لیے میں پہلے پرائیویٹ اداروں کی بات کروں گی۔ اور چونکہ میں نے تین پرائیویٹ اداروں میں پڑھایا ہے اور اکیڈمی میں بھی مختلف پرائیویٹ اداروں کے بچوں کو پڑھایا کے بچوں کو پڑھایا ہے۔ اس لیے میں بہت حد تک اس سسٹم کو جان چکی ہوں۔
علاوہ ازیں میری کچھ دوستیں بھی پرائیویٹ اداروں میں اساتذہ ہیں اور آپس کی گفتگو سے ہمیں ایک دوسرے سکولوں کی بہت ساری باتیں پتا چلتی رہتی ہیں۔
ہمارے ہاں بچے ذہین ہیں۔ پچیس سے تیس فیصد بچے اعلیٰ ذہانت کے مالک ہیں اور تیس سے ستر فیصد لوگ نارمل لیول پر ہیں۔
ہمارے ہاں پرائیویٹ اداروں میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ بچوں کا کورس مکمل کروایا جائے۔ کلاس روم میں ٹیچر صرف بچوں کو کام لکھوانے، ہوم ورک اور ٹیسٹ کاپیاں چیک کرنے اور کتاب سے پڑھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس سے جو ایک خاص چیز کا نقصان ہو رہا ہے جس پر کم دھیان دیا جاتا ہے، وہ بچوں کی تربیت ہے۔ بچوں کو بہت کم کسی بات کا عملی مظاہرہ کروایا جاتا ہے۔
جبکہ سرکاری سکولوں میں ایک کلاس روم میں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک ٹیچر بمشکل بچوں کی ہوم ورک کاپیاں چیک کرنے کے بعد پچھلا سبق سنتی ہے۔ اور اگلا سبق پڑھاتی ہیں۔ کلاس روم میں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بچے اور ٹیچر آپس میں کم بات چیت کرتے ہیں، اور بچوں کو کسی بات کا عملی مظاہرہ کم کروایا جاتا ہے۔ چونکہ سرکاری اداروں میں پڑھائی کا بوجھ پرائیویٹ اداروں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ مگر سرکاری اداروں میں ٹیچرز کی اپنے اپنے بچوں کے ساتھ اٹریکشن کم ہوتی ہے۔ جس کے باعث ان بچوں کا اخلاق ویسا تعمیر نہیں ہو پاتا جیسا امید رکھی جاتی ہے۔ اساتذہ کو اور بچوں کو کلاس روم میں وقت ہی مہیا نہیں ہو سکتا۔ جس میں اساتذہ طلبہ سے اور طلبہ اساتذہ سے بات کر سکیں۔ تاکہ اساتذہ طلبہ کی نیچر کو، ان کی طاقت اور کمزوری کو سمجھ سکیں اور ان کی رہنمائی کر سکیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے طلبہ میں خود اعتمادی نہیں پیدا ہوتی اور وہ خود کی صلاحیتوں سے آگاہ نہیں ہیں۔ ان میں اس چیز کی کمی ہے۔ جس سے وہ بچے معاشرے میں بھی اپنا اخلاق بہتر نہیں بنا سکتے۔ وہ بچپن میں چیزوں کو، باتوں کو، اصولوں کو اڈوپٹ کرتے ہیں۔ مگر جب ان کی تربیت ایک خاص عمر تک نہیں جائے گی تو ان کی ساری زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ دوسرے ترقی یافتہ معاشروں سے پیچھے ہے۔ کیونکہ ہمارے بچوں کو ایمانداری اور خلوص سے کام کرنے کی تربیت کم دی جاتی ہے اور عملی سرگرمی بھی کم کروائی جاتی ہے۔استاد ہونا ایک فخر کی بات ہے۔ کیونکہ یہ ایک پیغمبری شعبہ ہے۔ ایک استاد ایک روحانی باپ یا روحانی ماں ہوتی ہے۔ میں یہاں استاد کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتی ہوں کہ استاد کس کس طرح کے ہوتے ہیں۔ عام طور پر استاد سخت بھی ہوتے ہیں اور نرم بھی ہوتے ہیں۔ سخت ہونا استاد کی مجبوری بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کچھ طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو نرم زبان نہیں سمجھتے۔ اور کچھ لوگ قدرتی طور پر سخت ہوتے ہیں۔ میں یہاں ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ استاد کو اپنے طلبہ کے ساتھ نرم و سخت دونوں طرح کا رویہ رکھنا چاہیے۔
بہت زیادہ نرم رویہ بچوں کو خراب کر سکتا ہے اور بہت زیادہ سخت رویہ بچوں کو باغی بنا سکتا ہے۔ میں چونکہ ایک پاکستانی ہوں، اس لیے اپنے ملک کی بھلائی کے لیے اساتذہ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ وہ یہ کہ:
بچے ہمارے ملک کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ یہ ایک جدید دور میں پیدا اور پلنے پھولنے والے بچے ہیں۔ ان بچوں سے غفلت برتی جائے تو نہ صرف یہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ یہ غلط راستے کی طرف چل سکتے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے ساتھ رہ کر، ان کے ساتھ گھل مل جائیں۔ تاکہ یہ اپنے جذبات، خیالات اور احساسات کا اظہار آپ سے کر سکیں۔ اور یوں آپ ان کی صحیح راستے کی طرف رہنمائی کر سکیں۔
یہ بچے ہمارے ملک کا بیش قیمت خزانہ ہیں۔ ان میں سے کچھ ہیرے ہیں، کچھ سونا ہیں اور کچھ چاندی ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے کچھ لوہا اور پیتل بھی ہیں۔ یہ بات قابل قبول ہے کہ ہیرا اور سونا بیش قیمت ہیں، خاص طور پر ہیرا۔ مگر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ لوہا اور پیتل کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے۔ یہ سستے ضرور ہیں مگر ہماری روزمرہ زندگی میں ان کا استعمال ان کے فوائد اور قابل حصول کی وجہ سے بہت ذیادہ ہے۔
اسی لیے ہم کسی بھی بچے کےساتھ غفلت نہیں برت سکتے ہر ایک کو سمجھنا ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ اور اس کے مطابق ان کے ساتھ رویہ برقرار رکھنا چاہیے۔ تاکہ آپ انھیں معاملات میں نرم طریقے سے سمجھا کر سخت طریقے سے عمل کرنا سیکھا سکیں۔
اس کے برعکس اگر آپ نے بچوں کے ساتھ صرف سخت رویہ اختیار کر لیا تو بچے آپ سے اپنے جذبات، احساسات اور خواہشات کا اظہار نہیں کر پائیں گے۔ اور اس بات کا خدشہ ظاہر ہو سکتا ہے کہ یہ رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے غلط راستے اختیار کر لیں گے۔
استاد کو اپنے طلبہ کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے طلبہ کو نصاب پڑھائیں بلکہ ان کے ساتھ خوش دلی سے باتیں بھی کریں۔ ان کی باتیں سنیں، ان کی شرارتوں کا پہلے اچھے سے مشاہدہ کریں انھیں یہ بات باور کروا دیں کہ کھیلتے ہوئے بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔
اساتذہ کو خود بھی بچوں کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ بچے استاد کی کر بات کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں، ہر عمل کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اود اس عمل کی نقل اپنے گھر والوں اور دوستوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس لیے استاد پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
یہ شعبہ دوسرے شعبوں سے بیشتر مختلف ہے۔ کیونکہ ایک انسان باقی دوسرے کئی انسانوں کی زندگی پر اثر رکھتا ہے اور یہی اثر پاکستان کے ہر شعبے کے حال اور مستقبل پر نمایاں اثر ڈالتا ہے۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم خود بھی ایمانداری سے اپنا فرض نبھائیں اور بچوں کو بھی اس بات کا نہ صرف درس دیں بلکہ انہیں کلاس روم میں یا سکول میں عملی مظاہرہ پیش کرنے کو کہیں اور ان کے مظاہرات کا مشاہدہ کریں اور ان کی رہنمائی کرتے رہیں۔
اور یوں وہ دن دور نہیں ہو گا جب پاکستان ہر میدان میں ترقی کرے گا۔ کیونکہ اس کے طلبہ اور پھر وہی طلبہ ذمہ دار شہری بن کر ایمانداری سے اپنا فرض نبھائیں گے۔ اور اس کی بنیاد ایک ذمہ دار اور ایک ایماندار استاد فراہم کرے گا۔00 -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.