ہسپتال کے کمرے میں موجود عورت کی تکلیف سے کون نا آشنا ہو سکتا ہے، (جو کوئی بھی اس کمرے میں موجود ہو)۔ بظاہر تندرست نظر آنے والی اُس عورت کی تکلیف کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اُس عورت کو اٹھنے بیٹھنے یہاں تک کہ لیٹتے ہوئے بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس یہی نہیں، بلکہ لیٹے ہوئے کروٹ بدلنے میں بھی اس کو نہایت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
مگر پھر بھی اسے اپنی ذات سے ذیادہ دوسری ذات کا احساس ہوتا ہے، وہ ذات جو اُس کے پہلو میں ہوتی ہے۔ اپنی جسمانی اور انتہائی تکلیف کو چھوڑ کر اسے سامنے موجود ذات کے بارے میں ذیادہ فکر ہوتی ہے۔
وہ دونوں وجود کوئی اور نہیں، بلکہ ماں اور بچے کی ذاتیں ہوتی ہیں۔ “ماں اور اس کا بچہ” ۔ جس کے لیے ماں کو صرف کچھ لمحات کے لیے ہی نہیں، ، کچھ دن کے لیے تکلیف برداشت نہیں کرنی پڑتی، بلکہ اسے اپنے درد کو کئی دن اور کئی رات برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اس بچے کی پیدائش کے وقت ماں کو جو تکلیف سہنی پڑتی ہے، وہ ایک عام مرد کی تکلیف کے مقابلے میں دو گنا ذیادہ ہوتی ہے۔ پھر بچے کے پیدائش کے بعد بھی کئی دن تک اُس ماں کو بے پناہ تکلیف سہنی پڑتی ہے۔ اور درد کا وقت صرف کچھ دن ہی نہیں بلکہ ساری زندگی ماں کو بچے کو پالنے میں کئی دردوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے، کئی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیدائش کے بعد ماں کو گرمیوں کے گرم دنوں اور گرم راتوں کو اٹھ اٹھ کر بچے کے لیے آرام و سکون کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ سردیوں کی ٹھنڈی راتوں کو خود ماں ٹھنڈی جگہ پر لیٹ جاتی ہے، مگر بچے کو ٹھنڈ سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس کی حاجت کا خیال رکھتی ہے۔ اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بار بار اپنے آپ کو اٹھنے کی زحمت دیتی ہے۔
تو پھر کیونکر پروردگار اپنی بندی پہ اس قدر مہربان نہ ہو؟ کیونکر اس کے قدموں تلے جنت نہ ہو؟ ارے ایک ماں ہی وہ ذات ہے جس کو بچے کی پیدائش سے قبل کئی ماہ تک درد کو سہنا پڑتا ہے، بچے کے وقت پیدائش ماں کو ایک عام انسان کی تکلیف کے مقابلے کئی ذیادہ تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اور پھر پیدائش کے بعد بھی ساری زندگی ماں کو بچے کے لیے کئی طرح کے دکھ، درد اور تکالیف کا سامنا رہتا ہے۔
بچے کی ایک آہ پر جس کی آنکھ کھل جائے، جو اپنے منہ میں جاتا لقمہ بچے کی بھوک کہنے پر اس کے منہ میں ڈال دے، جو خود ٹھنڈے بستر پر لیٹ کر بچے کو گرم بستر پر لیٹا دے، بچے کی ہر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرے: ارے! وہ ہستی کوئی اور نہیں بلکہ ماں ہی وہ ہستی ہے۔
ماں تو اپنے آنسو اپنے بچوں سے چھپا لیتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کے لیے بے پناہ فکر مند رہتی ہے چاہے بچہ کسی بھی عمر کا ہو: راتوں کو اٹھ کر دیکھتی ہے کہ بیٹی کام ختم کر چکی ہے کیا؛ بیٹا کام سے واپس آ چکا ہے کیا؛ بچوں نے کھانا کھا لیا ہے کیا۔ اسی لیے تو رب العالمین نے ماں کو اس کی ممتا کا اتنا اجر دیا ہے کہ ماں کے قدموں تلے بچوں کے لیے جنت رکھ دی۔
جن کی مائیں زندہ ہیں، اللہ تعالی ان کی ماؤں کو سلامت رکھے اور صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے۔ اور جن کی مائیں اس دنیا سے جا چکی ہیں، اللہ تعالی ان ماؤں کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
آمین، آمین، ثم آمین