رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : خلوت و عبادت

Viewing 1 post (of 1 total)
  • Author
    Posts
  • #14333

    eman
    Participant

    بچپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں مگر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت پسند آئی چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور ِ تعلیم:
    حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اْمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے،اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریعی دورنبوت کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اْمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ پینے کا زمانہ ہے لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کا خیال فرماتے ہیں۔حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبول نہیں فرماتے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔
    اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننگے کندھے پر پتھر اْٹھاکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔
    کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور’’ التاجر الصدوق الامین ‘‘(امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔
    معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔
    صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے چنانچہ قبائلِ قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ہم نے بارہا تجربہ کیا مگر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہمیشہ سچا پایا۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بطورِ اْسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا۔
    ’’بلاشہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے ہر اْس شخص کے لیے جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔‘‘(الاحزاب21)

    0

    0
Viewing 1 post (of 1 total)

You must be logged in to reply to this topic.