خوش قسمت ہے وہ انسان جس کو پروردگار ایسے انسان سے نواز دے ،جو ہرحال میں دوسرے کا ساتھ دے۔ہر خوشی میں، ہر تکلیف میں ساتھ نبھائے۔ بانٹ لے سب کچھ دوسرے کا۔
انسان کو محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اکیلا ہے، اسے تکلیف اکیلے ہی برداشت کرنی ہو گی۔
اسے سکون ہوتا ہے کہ کوئی اس سے بات کرنے والا نہ ہو تو وہ انسان تو بات کرنے والا ہو گا۔کوئی عزت کرنے والا نہ ہو،وہ تو ہو گا۔مسکراہٹ کی وجہ نہ ہو،وہ تو ہو گا۔
پروردگار خود توبات نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ میں دے کر بھی آزماتا ہوں، اور نہ دے کر بھی۔
جس کے پاس ایسا انسان ہے، وہ شکر نہ کرے، بھول جائے پروردگار کو، تو پروردگار ناراض ہونے لگتا ہے۔
اور جس کے پاس نہیں، وہ کہتا ہے کہ یا رب! میں اکیلا ہوں۔تو بھی بات نہیں کرتا، بے سکون ہوں۔۔۔کروں تو کیا کروں۔
نہ جانے پروردگار جن کو عطا کرتا ہے، اُن کو عطا کیوں کرتا ہے۔ اور جن کو عطا نہیں کرتا، اُن کو عطا کیوں نہیں کرتا۔
اور نہ جانے وہ انسان جس کا پاس ایسا انسان ہے، وہ قدر اور شکر کیوں نہیں کرتا، اور جس کے پاس ایسا انسان نہیں ہے، وہ بے بس کیوں ہو جاتا ہے۔
انسان کو کیسے سمجھایا جائے کہ جو خوشی یا تکلیف خود کی محسوس کی جائے اور جو خوشی یا تکلیف دوسرے کی محسوس کی جائے ، اِس میں کیا راز چھپا ہے۔
دوسرے کا دکھ بانٹ لینے میں کیا سکون چھپا ہے۔ دوسرے کی خوشی میں اُس کے ساتھ محسوس کرنے میں کیا راحت چھپی ہے۔
کوئی کیسے سمجھائے کہ کسی کو یا کسی کی دکھ اور خوشی بانٹ لینے میں کس قدر سکون ہے۔
اور وہ جو نہ خوشی بانٹتے ہیں، اور نہ دکھ ۔۔۔۔ وہ بے سکون رہتے ہیں ہر حال میں۔
اور دنیا ہے ہی کیا۔۔۔۔ سکون حاصل کرنے کی جستجو اور بے سکونی سے چھٹکارا۔۔۔۔
مگر سکون اور بے سکونی تو پروردگار نے رکھ ہی “بانٹنے ” میں دی ہے۔
مگر ایسا بھی ہے کہ بہت خوش قسمت ہوتا ہے وہ انسان جو ہر خوشی اور تکلیف کو اپنے پروردگار سے شئیر کرتا ہے۔ اس سے بانٹ لیتا ہے ، اسے دوست بنا لیتا ہے۔
اور نہ جانے پروردگار کو دوست کیسے بنایا جا سکتا ہے۔۔۔۔ کہاں سے اتنا حوصلہ اور سکون لایا جاتا ہے کہ اپنا ہر دکھ اور خوشی صرف اور صرف اللہ سے شئیر کر دی جائے، اور کسی انسان سے نہ بانٹی جائے۔
جبکہ دوسری طرف ایسا ہے کہ انسان تلاش کرتا ہے ، خواہش کرتا ہے، مانگنا چاہتا ہے، اور مانگتا بھی ہے کہ اسے بانٹنے والا کوئی مِل جائے۔ کوئی ساتھ دینے والا مِل جائے۔
بانٹنا کسے کہتے ہیں؟ ساتھ دینے کو بانٹنا کہتے ہیں۔
ساتھ دینا کیا ہوتا ہے؟ جب آپ دوسرے انسان کی بات سنتے ہیں ایسے کہ وہ آپ کے لیے بہت اہم ہے۔ جب آپ اس کی خوشی یا غم کو ایسے محسوس کرواتے ہیں کہ وہ آپ کی اپنی تکلیف یا غم ہو۔
اللہ تعالیٰ کیوں ایسے انسان سے نوازتا ہے؟
اور اللہ تعالیٰ کیوں ایسے انسان سے نہیں نوازتا؟
اس کا جواب یہی ہے کہ پروردگار کہتاہے کہ میں انسان کو دے کر اور نہ دے کر یا چھین کر آزماتا ہوں۔
اُس کی اُسی آزمائش پر کیسا پورا اُترا جائے، تو یہاں پھر ساتھ چاہیے۔۔۔ اور ساتھ چاہیے ایسے انسان کو جو آپ سے اللہ کی بات کرے۔ جو آپ کو اللہ تک لے جائے، ہاتھ پکڑ کر، سچے دِل اور خلوص کے ساتھ۔۔۔۔۔۔
ایسا انسان کہاں ملے گا؟۔۔۔۔۔۔۔ جستجو کرنی پڑے گی شاید۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروردگار سے مانگنا پڑے گا شاید، گِڑگِڑانا پڑے گا شاید۔۔۔۔