“الحمد للہ رب العالمین”
قرآن پاک کی سب سے پہلی صورت کی سب سے پہلی آیت ہے۔
اس کا ترجمہ کچھ ایسا ہے کہ ” تما م تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، جو تما م جہانوں کا رب ہے “۔
اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسول احمد مصطفیٰ ﷺ پر اپنی آخری کتاب قرآن پاک نازل فرمائی : اور اسکی سب سے پہلی صورت کی سب سے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ : تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ یعنی آغاز میں ہی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ” تمام تعریفیں” : اس میں پہلے لفظ “تمام تعریفیں ہیں” استعمال کیا ، اور پھر اس کے ساتھ کہا کہ ” اللہ کے لیے” ۔ اس سے آگے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ رب العالمین کے لیے ہیں، یعنی کہ جو تمام جہانوں کا رب ہے، رب یعنی پیدا کرنے والا ہے، پروردگار ہے۔
اس آیت کا بغور جائزہ لیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس ایک آیت میں – جس میں چار الفاظ ہیں – اللہ تعالیٰ نے سب کچھ شامل کر دیا۔ فرمایا کہ تمام جہانوں کا رب ہے: یعنی ذرہ، ریت، پتھر ، پہاڑ، زمین، آسمان، سورج ، چاند، ستارے ، سیارے، انسان ، جنات ، فرشتے، حیوانا ت( کیڑے مکوڑے، حشرات، جانور، چرند پرند)، نباتات ( درخت، پتے) پھل، سبزیاں ، لکڑی، معدنیات ( سونا ، چاندی، ہیرے، موتی و غیرہ وغیرہ)، آبی حیات، ہوا، بارش، پانی : یہ سب ایک جہاں میں ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ان سب کا رب ہے، ان سب کو پیدا کرنے والا ہے۔ اس کے علاوہ عرش، لوح ، قلم، محشر ، حساب و کتا ب : جو دوسرا جہاں ہے، اس کا رب ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے دن ، رات بھی بنائے، ہوابھی بنائی، بارش بھی بنائی، بادل بھی بنائے، سایہ بھی بنایا، سوچ بنائی ، توجہ بنائی، فکر بنائی،حکمت بنائی، اور بے شمار چیزیں پیدا کیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان سب کا رب ہوں۔
اگر انسان کو کوئی چیز ، جگہ یا کو ئی دوسرا انسان اچھا لگے تو وہ اس کی تعریف اپنے اپنے انداز میں کرتا ہے، جس قدر وہ اسے پسند آئے۔ تو قرآن پاک جو اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے، اس کی پہلی ہی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنےبندوں کی توجہ اس طرف دلواتا ہے کہ اے میرے بندو! تمھیں جو کچھ بھی اس دنیا میں نظر آ رہا ہے اور جس کا ذکر آگے کرنے والا ہوں: میں ان سب کا رب ہوں۔ اس کے علاوہ ان دیکھی چیزو ں کا رب ہوں جیسے کہ سوچ، حکمت ، خوف ، ڈر کا رب ہوں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں ان سب کا رب ہوں جو تمام جہانوں میں ہے۔ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوئی، اللہ تعالی نے جہانوں کا اور اپنے رب ہونے کا ذکر کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اور اس کے بعد ارشاد فرمایا : اپنی بڑائی بیان کی کہ تمام تعریفیں اس لیے میرے لیے ہیں کیونکہ میں ہر شے کا رب ہوں، ہر شے کو پیدا کرنے والا ہوں، ہر شے کا پروردگا ر ہوں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! جو تم دیکھ سکتے ہو ایک جہان میں اور جو جہان تم دیکھ نہیں سکتے ہو،میں ان سب کا رب ہوں، اس لیے تمام کی تمام تعریفیں میرے لیے ہی ہیں۔
انسان جب کسی دوسرے انسان ، چیز یا جگہ کی تعریف کرتا ہے ، چاہے وہ چیز کسی دوسرے انسان نے ہی بنائی ہو تو وہ تعریف اس انسان کی نہیں ہو رہی ہوتی ؛ بلکہ وہ تعریف در حقیقت اللہ تعالی کی ہی ہو رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے ہی انسان کو پیدا کیا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالی نے ہی انسان کے اندر سوچ اور غوروفکر اور ہنر کی صلاحیت پیدا کی ہے۔ اس لیے اللہ تعالی کی تعریف اور اس کا شکر ادا کرنے کا چھوٹا سا بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہ کلمات ادا کیے جائیں ” الحمد للہ رب العالمین”۔ کیونکہ جن کلمات میں اللہ تعالی نے سب کچھ سما دیا ہے، ان کلمات کو ادا کیا جائے تو اللہ تعالی بھی اپنے بندے سے راضی ہوگا۔ اور اس کے شکر کرنے اور تعریف کرنے کے عمل کو پسند کرے گا۔