Forum
میرے پیارے والد
-
AuthorPosts
-
March 23, 2019 at 12:07 pm #11416
والدین کو اپنے بچوں سے کتنی محبت ہوتی ہے، اس پر کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خاص طور پر ماں کی اپنے بچوں کے لیے محبت کا یہ درجہ ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔ گھر میں والد کا کردار ایک سربراہ کا ہوتا ہے، جس پر گھر سے باہر کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ بچے چونکہ اپنا ذیادہ وقت ماں کے ساتھ گزارتے ہیں، لہذا اُن کا ماں کے ساتھ قریبی تعلق ہونا فطری عمل ہے۔ بچے اپنی ذیادہ تر باتیں اپنی ماں سے ہی کرتے ہیں۔ باپ اپنے بچوں کی ماں کے ساتھ قربت دیکھ کر ہی خوش ہوتا رہتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے یہ کبھی سوچا ہے کہ باپ کو بھی اپنے بچوں سے ماں سے ذیادہ نہ سہی لیکن ماں سے کم محبت بھی نہیں ہوتی اور اس کا بھی دل چاہتا ہو گا کہ اُس کے بچے بھی اُس کے اُتنا ہی قریب ہوں جتنا اپنی ماں کے قریب ہوتے ہیں۔
میں جب 2010 میں پہلی بار باپ بنا اور میں نے اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میرے والد کو مجھ سے کتنی محبت ہے۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جس کو الفاظ کسی بھی طرح بیان نہیں کر سکتے۔ اس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ دوسروں لوگوں کی طرح میرے دل میں والدہ کا احترام اور عزت تو ہمیشہ سے ہی دل میں تھا لیکن خود باپ بننے کے بعد سے والد کے لیے دل میں احترام مزید بڑھ گیا۔
خود باپ بننا ایک نیا تجربہ تھا۔ مجھے اولاد کی محبت کے تجربے کے بعد یہ بھی اندازہ ہوا کہ میرے والد نے کتنی مشکل سے مجھے بیرونِ ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ مجھے بچپن سے لے کر اب تک کی وہ ساری باتیں یاد آئیں جہاں والد کی محبت کو بار بار ان کے گھر کے سربراہ کے کردار نے چھپا دیا۔ مجھے والدہ کے بنے ہوئے کھانوں کا ذائقہ تو ہمیشہ یا د رہا لیکن اِس طرف ذیادہ دھیان نہیں رہا کہ اِس سب کے لانے کے لیے محنت تو والد کی ہے۔
آپ اپنے والد کی زندگی کو غور سے دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ آپ کے لیے آپ کے والد نے کتنی محنت کی ہے اور والد نے کبھی اس کا اظہار بھی نہیں کیا۔ ماں کا مقام بلند تر ہے اور ماں کو اپنی اولاد کی توجہ بھی اتنی ہی ملتی ہے ۔لیکن والد چپ چاپ بنا اولاد کی توجہ حاصل کیے اُن کی ضروریات پوری کرتا ہے۔
میرے والد نے چالیس سال ایمان داری کے ساتھ سرکاری ملازمت کی۔ یقینًا اللہ نے رزقِ حلال میں برکت رکھی ہے۔ لیکن ایک محدود آمدنی کے ساتھ پانچ بچوں کی پرورش اور پھر پانچوں کو کم از کم ماسٹر تک تعلیم دلانا، والد اور والدہ کا ایسا کارنامہ ہے جس کے بارے میں بہت سوچا مگر اتنا پڑھ لکھ کر بھی یہ حساب کتاب سمجھ میں نہیں آیا کہ انہوں نے یہ کیسے کر لیا۔ میری دو بہنوں کی شادی بہترین طریقے سے کس طرح کی۔ یہ بھی بس والد اور والدہ ہی جانتے ہیں۔ میری یونیورسٹی کی فیس اتنی ذیادہ تھی کہ داخلے کے وقت والد سے ایک فارم پر وعدہ لیا گیا کہ آپ یہ فیس ادا کر سکتے ہیں تو آج بھی یاد ہے کہ والد نے دستخط کیے اور ساتھ انشاء اللہ لکھا۔ جب میری یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہوئی تو مجھے موٹر سائیکل لے کر دی تاکہ مجھے جاب پر آنے جانے میں آسانی ہو جبکہ خود انھوں نے ساری زندگی موٹر سائیکل نہیں لی۔
مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ایمان داری کی وجہ سے اپنی ملازمت میں جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ( افسوس ہے نہ کہ چوروں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ) تو وہ ہمارے سامنے خود پر بہت جبر کر کے بس اتنا کہتے کہ اِس ملک سے نکل جاؤ، یہاں ایمان دار کے لیے کچھ نہیں رکھا۔ اللہ نے اُن کی سن لی اور جب مجھے پی ایچ ڈی کے لیے بیرون ملک سکالر شپ ملا تو انھوں نے مجھ پر کیے گئے ان گنت احسانوں میں ایک اور کا اضافہ کرتے ہوئے اپنی محبت کو میرے اچھے مستقبل پر قربان کر دیا اور مجھے بظاہر خوشی سے جانے کی اجازت دی۔ آج مجھ سے اپنے بچوں کی دوری کا سوچا بھی نہیں جاتا اور یہی خیال آتا ہے کہ والد نے کیسے مجھے جانے دیا ہو گا۔
سب سے چھوٹے بھائی کو تعلیم کے یے بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا تو تب والد صاحب ریٹائر ہو چکے تھے۔ لیکن پھر بھی بھائی کی فیس کے لیے اپنی جمع پونجی کے طور پر جو ایک پرانا مکان تھا’ وہ بیچ دیا۔ اور وہ بھی اُس وقت جب اُنھیں بیماری سے لڑتے ہوئے بارہ سال ہو چکے تھے۔ یہ سب دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ میں اپنی اولاد کے لیے وہ سب کچھ کر سکوں جو میرے والد اور والدہ نے ہم بہن بھائیوں کے لیے کر دیا ہے۔اللہ سے وہ ہمیشہ یہی دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے کسی کا محتاج نہ کر اور اللہ اپنے پیارے بندوں کی دعا کب رد کرتا ہے۔ اللہ نے انھیں پیسوں میں ساری زندگی نہ کسی کا محتاج کیا اور نہ ہی بیماری میں۔ بارہ سالوں کی ہیپا ٹائٹس سی کی بیماری کے باوجود وہ ایک دن بھی بستر پر بیماری سے نہیں لگے۔ حتٰی کہ ڈاکٹر بھی پچھلے تین سالوں سے خود حیران تھے کہ اتنا بیمار ہونے کے باوجود وہ کس طرح سے چل پھر کر اپنے سارے کام کر رہے ہیں۔ لیکن بلاآخر ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
یادوں کا ایک سمندر ہے جو اُمڈ اُمڈ کر چلا آتا ہے۔ وہ اللہ جس کو اپنے بندوں سے چالیس ماؤں سے ذیادہ پیار ہے اور جس نے وعدہ کیا ہے کہ جدائی عارضی ہے اور اپنے پیاروں سے دوبارہ ملنا لازم ہے۔ اگر یہ وعدہ نہ ہوتا تو یقینًا اس جدائی کے غم سے نکلنا نا ممکن تھا۔ لیکن ایک بات کا حوصلہ ہے کہ قیامت کے دن نامہ اعمال میں ایک نیکی ضرور ہوگی کہ والد مجھ سے راضی رہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ہمارے والدین سے جنت الفردوس میں دوبارہ ملائے ۔ آمین، ثم آمین۔
پیسِ تحریر : میرے پیارے والد جو 20 جنوری 2019 کو اِس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ دعاے مغفرت کی التماس ہے۔
50March 23, 2019 at 10:35 pm #11422Love it..
20April 5, 2019 at 4:02 pm #11464heart touching
00 -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.