Forum
سمندر پار پاکستانی
-
AuthorPosts
-
July 24, 2018 at 11:59 pm #10919
زندگی میں جب پہلی بار پاکستان سے باہر سفر کیا تو یونیورسٹی سے سکالرشپ ملا تھا۔ ٹکٹ کا بندوبست بھی یونیورسٹی والوں نے کیا تھا۔ سفر یونا ن کا تفریحی شہر” روڈز” تک کا تھا اور ائیر لائنز امارات تھی۔ چونکہ زندگی کا پہلا ہوائی سفر تھا، لہذا واپس آنےکے بعد ایک دوست کو بتایا تو اُس نے کہا واہ ! امارات ایئر لائن، بہت مزا آیا ہو گا۔ میں نے کہا کہ امارات میں کیا خاص بات ہے؟ تو دوست نے کہا کہ اگر کبھی پی آئی اے میں سفر کیا توفرق پتا چلے گا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اگلے سال پھر سکالر شپ مِل گیا۔ اور اس بار سفر تھا ٗاٹلی کے شہر “وینس” کا۔ اور دبئی تک کی فلائیٹ شاہین ائیر لائن کی تھی۔ اور دبئی کے سفر کے دوران دوست کی کہی ہوئی بات بار بار یا د آئی۔ اگرچہ یہ پی آئی اے نہیں تھی، لیکن ورلڈ کلاس ائیر لائن اور لوکل ائیر لائن کا فرق سمجھ میں آ گیا۔ اور نتیجہ یہ کہ شاہین ائیر لائن میں آخری بار سفر کیا۔اسی طرح پاکستان سے باہر رہ کر فطری طور پر انسان ہر چیز کا پاکستان سے مقابلہ کرتا ہے۔ اور اس کی وجہ وہی کہ جب تک امارات اور شاہین دونوں میں سفر نہ کیا ہو تب تک دونوں کافرق پتا نہیں چل سکتا۔ یہی حال جمہوریت کا بھی ہے۔ پاکستان سے باہر جانے والے وہ پاکستانی جنہوں نے پاکستان میں کئی سال گزارے ہوتے ہیں، جب وہ باہر جاتے ہیں اور وہاں کی جمہوریت دیکھتے ہیں تو اُنہیں پاکستان کی جمہوریت کا حال سمجھ میں آتا ہے۔ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ لندن جیسے شہر کا امیر ترین علاقہ “پارک لین” اور”مے فئیر” کی عمارت ایون فیلڈ ہاؤس میں جہاں برطانیہ کی تاریخ کا آج تک کا کوئی وزیر اعظم اپنا اپارٹمنٹ نہیں خرید سکا، وہاں پاکستان کے تین بار کے وزیراعظم اور ان کے بچے ایک دو نہیں، بلکہ چار اپارٹمنٹ کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ نواز شریف اور اُن کے بچوں کی لندن کے دوسرے علاقوں میں سات اور پراپرٹیز ہیں۔ اِن سب جائیدادوں کی تفصیلات کو برطانیہ کے معتبر اخبار ” ڈیلی میل” نے 24 جون 2018 کی اشاعت میں تفصیل سے شائع کیا ہے۔ برطانیہ میں جھوٹی خبر شائع کرنے پر شریف خاندان اربوں پونڈز کا ہرجانہ کر سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تک انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ اور وجہ صاف ظاہر ہے کہ ڈیلی میل کی خبر سچی ہے۔
یہ پاکستانی یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اُن کا سرکاری ہسپتالوں میں بہترین علاج ہوتا ہے۔ اُن کے بچے گورنمنٹ سکول میں ہی بہتر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں کسی سرکاری کام کے لیے کسی کو رشوت نہیں دینی پڑتی۔
اور جب پاکستان اور برطانیہ کی جمہوریت دیکھنے کے بعد اِن سمندر پار پاکستانیوں کو دونوں کا فرق سمجھ میں آتا ہے تو وہ اپنے پاکستان میں موجود بھائیوں کو یہ فرق سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو انہیں آگے سے ایسا جملے سننے کو ملتے ہیں “خود تو پاکستان چھوڑ گئے ہو اور ہمارے حالات ٹھیک کرنے کی باتیں کرتے ہو” ، “پہلے پاکستان آؤ، پھر بات کرو” ، “بھائی پاکستان کا اتنا خیال ہے تو ووٹ ڈالنے پاکستان آؤ” ، “تم پاکستان سے باہر رہ کر کونسا پاکستان کی خدمت کر رہے ہو” ، “پاکستان سے باہر رہ کر تم لوگ پاکستان میں اپنے خاندان کو سپورٹ کرتے ہو، پاکستان کے لوگوں کا تم سے کیا فائدہ”۔ پاکستان میں رہنے والوں سے یہ باتیں سن کر دکھ تو ہوتا ہے لیکن بات وہی کہ جب تک بندہ امارات ائیرلائن میں سفر نہ کر لے، اُسے شاہین ائیر لائن ہی بہترین لگتی ہے۔ لیکن سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ضروری یہ ہے کہ وہ نہ مایوس ہوں، نہ غصہ ہوں بلکہ بار بار آرام سے اپنے پاکستان بھائیوں کو بتاتے رہیں کہ اصلی جمہوریت کیسی ہوتی ہے۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتی ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ ان سمندر پار پاکستانیوں نے پاکستان کی بُری جمہوریت اور کسی مغربی ملک کی اچھی جمہوریت دونوں کا مشاہدہ کیا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ بات ان پر عیاں ہو چکی ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو پہلے بار بار موقع مل چکا ہوتا ہے وہ کسی صورت اچھی جمہوریت نہیں لانے والے۔ یہ لوگ عمران خان کو صرف اس لیے سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں تاکہ عمران خان پاکستان میں شاید اچھی جمہوریت لے آئے۔ جبکہ بار بار آزمائے جانے والے لندن میں یقننًا مزید جائیداد تو بنا سکتے ہیں، لیکن پاکستان میں اچھی جمہوریت نہیں لانے والے۔ ساتھ ہی یہ بات عمران خان کے لیے واضح اشارہ ہے کہ اگر اُس نے بھی اچھی جمہوریت نہ دی تو یہ لوگ کسی اور اگلے بندے کو سپورٹ کریں گے۔ لیکن زرداری اور نواز شریف کی اولادوں کو کبھی سپورٹ نہیں کریں گے۔
آخر میں کچھ اِس پر کہ پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستان کی کتنی خدمت کرتے ہیں، باقی باتوں کو چھوڑ کر صرف انہیں پیسوں پر بات کر لیتے ہیں جو یہ پاکستان بھیجتے ہیں۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق سمندر پار پاکستانی ہر مہینے (جی غور سے پڑھیے) ہر مہینے 1 بلین ڈالر (کم از کم 120 ارب روپے) پاکستان بھیجتے ہیں، جو سال کے 12 بلین ڈالر بنتے ہے۔ مزید معلومات کے لیے یہ عرض ہے کہ پاکستان کے قومی خزانے میں 12 بلین ڈالر بھی نہیں ہیں۔ اور جو 10 بلین ڈالر اِس وقت ہے وہ سارے کے سارے سمندر پار پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے ہیں۔ مشرف کے دور میں امریکہ کے پوری طرح تلوے چاٹ کر اور اپنی فوج کے لوگ شہید کروا کے بھی 1 سال کے (مہینے کے نہیں، ایک سال کے) صرف 1 بلین ڈالر ملتے تھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی یہ سارا پیسہ اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں اور پاکستان کا اس سے کیا فائدہ؟ تو اُن لوگوں کو شاید معلوم نہیں کہ جب بھی باہر سے کوئی پاکستانی ڈالرز پاکستان بھیجتا ہے تو وہ سارے کے سارے ڈالرز باہر سے پہلے سٹیٹ بنک کے پاس آتے ہیں۔ اور سٹیٹ بنک ایکسچینج ریٹ کے مطابق پاکستانی روپے سمندر پار پاکستانی کے خاندان کو بنک کے ذریعے ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں جو شخص بھی بنکنگ کو جانتا ہے ، اُس سے پوچھ کے دیکھیں کہ اگر ہر مہینے یہ ایک بلین ڈالر (120 ارب روپے) پاکستان کو ملنا بند ہو جائیں تو عوام کا کیا حال ہو گا۔ ایسا ہونے کی صورت میں پٹرول کی قیمت ہی صرف کم از کم 500 روپے لیٹر ہو جائے گی (اس سے ہر چیز کی قیمت بھی کم از کم 5 گنا بڑھ جائے گی)۔ کیونکہ حکومت کو ہر مہینے کم از کم 120 ارب رو پے چاہییں ہوں گے۔ تو جو لوگ سمندر پار پاکستانیوں کو طعنے دیتے ہیں، وہ اگر اُن کا احسان نہیں مان سکتے تو کم از کم انہیں طعنے دے کر ان لوگوں میں شامل نہ ہوں جو جس تھالی میں کھاتے ہیں، اُسی میں سوراخ کرتے ہیں۔
Daily Mail Report on Nawaz Sheref London Properties
Pakistan Remittance Initiative Data
Monthly Remittance to Pakistan
30 -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.