Forum
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی اور اسلام میں شادی کہ عمر
-
AuthorPosts
-
May 30, 2025 at 12:26 am #16378
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کے نکاح کو لیکر کیئے جانے والے اعتراضات کا مدلل جواب :
محمد نعمان مکی۔
کنگ عبداللہ میڈیکل سٹی مکہ مکرمہ۔بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيِمِ.. الحَمْدُ لله رَبِّ العَالَمِينَ وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الخَلْقِ أَجْمَعِينَ وَخَاتَمِ الأَنْبِياءِ وَالمُرْسَلِينَ سَيِّدِنا مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَأَتْبَاعِهِ بِإِحْسَانٍ إِلَى يَوْمِ الدِّيِنِ.
کیا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح حضرت محمد ﷺ کے ساتھ کم سنی میں ہوا تها……؟؟؟
دشمنان اسلام خصوص” مغربی دنیا کے لوگ اس بات کو لیکر حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے نظر آتے ہیں. .. اور آپ ﷺ کے مبارک تقدس کو پامال کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں، جنکا دیکھا دیکھی آج کل ہندوستان کے کچھ تنگ ذہن، اسلام مخلاف لوگ بھی اس کو عنوان بنا کر مسلمانان ہند کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں.. جس کو سن کر مسلمان بہت زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں اور شان اقدس میں ہونے والی گستاخی کو برداشت نہیں کرپاتے، مگر اس کے باوجود اس اعتراض پر اپنے آپ کو لاجواب محسوس کرتے نظر آتے ہیں.. اور بعض مسلمان خود حیران ہوکر اس پر سوال کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے امی عائشہ سے اتنی کم عمری میں نکاح کیوں کیا تها….؟؟؟
آگے جو تحقیق اور حقائق آپکے سامنے پیش کیئے جارہے ہیں اسے پڑھ کر آپکے سارے اشکال دور ہوجائیں گے ان شاءالله، اور آپ خود اپنے دوسرے مسلم اور غیر مسلم بھائیوں کی غلط فہمی کو دور کر سکتے ہیں، یہ تحریر بڑی محنت سے تیار کی گئی ہے اسکو کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھیں تاکہ پوری زندگی آپکو اس عنوان کے متعلق تذبذب میں مبتلا نہ ہونا پڑے.صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنه کا نکاح انکی چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی کے وقت انکی عمر شریف نو برس کی تھی. { رواه البخاري (3894) ومسلم (1422) }..
یہ ساری روایات صحیح ہیں انکی صحت پر کلام نہیں کیا جاسکتا.
اس بات کو مغربی میڈیا نے کئی دفعہ mispresent کرکے عوام کے دلوں میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق بدگمانی پیدا کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے. ..
جس کی وجہ سے بعض لوگ حیرانی اور تعجب سے پوچھتے ہیں کیا محمد ﷺ نے ایک بچی سے نکاح کیا تھا…؟؟؟آئیے دیکھتے ہیں کہ اسکی کیا حقیقت ہے…..
اس نکاح کے پیچھے کیا حکمت تھی…؟؟؟
1400 سو سال پہلے کیا یہ عام سی بات تھی. ….؟؟؟؟
اسکا جواب دینے کے لئیے ان روایات کی صحت پر کلام کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسکو تاریخی پس منظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے…اہم نکتہ:-
وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں کی غذا اور انکے کے استعمال کی چیزوں میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں اور اسی طرح انسانوں کے اندر بھی جسمانی تبدیلیاں ( Anatomical and Physiological Changes ) ہوئی ہیں…
1400 سال پہلے اتنی کم عمری میں شادی ہونا ایک عام سی بات تھی… اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ، ایشیاء، افریقہ اور امیریکہ میں 9 سال سے 14 سال کی لڑکیوں کی شادیاں کردی جاتی تھیں. ..مثال کے طور پر سینٹ آگاسٹین Saint Augustine ~ 350 AD نے جس لڑکی سے شادی کی اسکی عمر 10 سال تھی. .
راجا ریچرڈ 2 ، KING RICHARD-II 1400 AD
نے جس لڑکی سے شادی کی اس کی عمر سات سال کی تھی. .
ہینری 8 ، HENRY 8 نے ایک 6 سال کی لڑکی سے شادی کی تھی. .1929 سے پہلے تک برطانیہ میں، چرچ آف انگلینڈ کے وزراء 12 سال کی لڑکی سے شادی کرسکتے تهے.
1983 سے پہلے کیتھولک کینان کے قانون نے اپنے پادریوں کو ایسی لڑکیوں سے شادی کرلینے کی اجازت دے رکھی تھی کہ جنکی عمر 12 کو پہنچ چکی ہو
بہت سارے لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ امیریکہ کے اسٹیٹ آف ڈیلیورا میں 1880 میں لڑکی کی شادی کی جو کم سے کم عمر تھی وہ 8 سال تھی. اور کیلیفورنیا میں 10 سال تھی
یہاں تک کہ آج تک بھی امیریکہ کے کچھ اسٹیٹس میں لڑکیوں کی شادی کی جو عمر ہے، وہ میسیچوسس میں 12 سال، اور نیوہیمسفر میں 13 سال اور نیویارک میں 24 سال کی عمر ہے
یہاں تک تو عیسائیت اور مغربی ممالک میں لڑکی کی شادی کی مناسب عمر اور وہاں کے معروف شخصیات کے متعلق تھا، جس سے یہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ تاریخی نکتہ نظر سے اس عمر کی لڑکی سے نکاح کرنا ایک عام سی بات تھی اور اسکو کوئی معیوب نہیں سمجھتا تھا
ہندو مذہب میں شادی کی عمر
اب ہندوستان کے قوانین اور ہندو مذہب کی مقدس کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں کہ ان میں لڑکی کی شادی کی مناسب عمر کے بارے میں کیا لکھا ہے. ؟
ہندو مذہب کی کتاب منوسمرتی میں لکھا ہے،
” لڑکی بالغ ہونے سے پہلے اسکی شادی کر دینی چاہیے”
( گوتما 18-21 )“اس ڈر سے کے کہیں ایام حیض نہ شروع ہوجائیں، باپ کو چاہئیے کہ اپنی لڑکی کی شادی اسی وقت کردے جب کے وہ بے لباس گھوم رہی ہو، کیونکہ اگر وہ بلوغت کے بعد بھی گھر میں رہے تو اسکا گناہ باپ کے سر ہوگا ”
واشستها ( 17:70 )
(manu ix, 88; http://www.payer.de/dharmashastra/dharmash083.htm)– Age of Marriage in India
ہندوستان میں شادی کی عمر :
اس کے متعلق کیمبرج کے سنٹ جانس کالج کے Jack Goody نے اپنی کتاب
The Oriental, the Ancient and Primitive
میں لکھا ہے کہ ہندوستانی گھروں میں لڑکیاں بہت جلدی ہی بیاہ دی جاتیں تھیں. .سری نواس ان دنوں کے بارے لکھتے ہیں جب کہ انڈیا میں بلوغت سے قبل شادی کرنے کا رواج چلتا تھا..
(1984:11) : لڑکی کو اسکی عمر کو پہنچنے سے پہلے اسکی شادی کردینی ہوتی تھی؛ ہندو لا کے مطابق اور ملک کے رواج کے موافق لڑکی کے باپ پر یہ ضروری تھا کہ وہ بالغ ہونے سے پہلے اسکی شادی کردے، گرچہ کہ رخصتی میں اکثر تاخیر ہوتی تھی، جو تقریبا” 3 سال ہوتی تھی.
(The Oriental, the Ancient, and the Primitive, p.208.)– اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایسی کم عمری کی شادیوں کا انڈیا میں آج بھی رواج ہے.
– The Encyclopedia of Religion and Ethics
میں لکھا ہے کہ، جس کی بیٹی اس حالت میں بلوغت کو پہنچتی تھی کہ وہ غیر شادی شدہ ہو تو اسکے (ہندو) باپ کو گنہگار سمجھا جاتا تھا ، اگر ایسا ہوتا تو وہ لڑکی خود بخود “سدرا” (نچلی ذات ) کے درجہ میں چلی جاتی تھی. اور ایسی لڑکی سے شادی کرنا شوہر کے لئیے باعث رسوائی ہوا کرتا تھامنو کی سمرتی نے مرد اور عورت کے لئیے شادی کی جو عمریں طے کی ہیں وہ اسطرح کہ، لڑکا 30 سال کا اور لڑکی 12 سال کی یا لڑکا 24 سال کا اور لڑکی 8 سال کی…
مگر آگے چل کر بھراسپتی اور مہابهارتہ کی تعلیم کے مطابق ایسے موقعوں پر (ہندو) لڑکیوں کی جو شادی کی عمر بتائی گئی ہے، وہ 10 سال اور 7 سال ہے، جبکہ اسکے بعد کے شلوکاس میں شادی کی کم از کم عمر 4 سے 6 سال اور زیادہ سے زیادہ 8 سال بتائی گئی ہے. اور اس بات کے بے شمار شواہد ہیں کہ یہ باتیں صرف تحریر میں نہیں تھیں ( یعنی ان پر عمل کیا جاتا تھا)
(encyclopedia of religion and ethics, p.450 ),– تو ہندو مذہب کے ماننے والوں کی اپنی کتابوں کے مطابق بھی اس عمر میں شادی کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں یا تو وہ جہالت کی بنیاد پر کرتے ہیں یا سیاسی مفاد کی خاطر… انکو چاہئیے کہ پہلے تاریخ کا اور اپنی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کریں
1400 سال قبل ملک عرب میں
بھی اس عمر میں لڑکی کی شادی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھاحضرت محمد ﷺ کے زمانے میں جن لوگوں نے آپکے پیغام کو جھٹلایا تھا، انہوں نے ہر طریقے سے آپ ﷺ کو بدنام کرنے اور آپکو نیچا دکھانے کی کی کوشش کی. وہ ہر اس موقع کی تاک میں رہتے تھے کہ جس سے وہ آپ ﷺ کی شخصیت پر وار کر سکیں زبانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی.
آپ ﷺ پر جو زبانی حملے کرتے تھے ان میں کبھی آپﷺ کو جادوگر کہتے تھے، کبھی آپکو کو جھوٹا کہتے تو کبھی آپ ﷺ کو مجنون کہتے تھے، نعوذ بالله من ذالك. مگر کبھی بھی ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنه سے آپکے نکاح کو لیکر اعتراض کریں یا طعنہ دیں، ایسا کیوں…؟؟؟
کیونکہ اسوقت انکے سماج میں یہ عام سی بات تھی. اور انکے نزدیک وہ کوئی ایسی عیب کی بات نہیں تھی کہ جس کو بنیاد بنا کر وہ آپ کو طعنہ دیتےکیا آپ جانتے ہیں. ..؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ کے پہلے 54 سال تک صرف ایک ہی زوجہ محترمہ تھیں، وہ ام المومنین حضرت خديجة الكبرى رضى الله عنه تھیں.
کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ایک بیوہ عورت تھیں جن سے حضرت محمد ﷺ نے نکاح کیا تها؟؟؟؟؟
اور کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں. .؟؟؟
حضرت محمد ﷺ نے اپنی زندگی کے عین جوانی کے ایام صرف یہ ایک بیوی حضرت خدیجہ رضى الله عنه کے ساتھ گذارے ہیں جو آپ سے 15 سال بڑی تھیں…اور آپ ﷺ نے انکی وفات تک بھی ان سے تعلق رکھا اور یہاں تک کے انکی وفات کے بعد بھی انکے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور تعلق کو برقرار رکھاأم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنه سے آپکا نکاح:
اللہ کے حکم پر آپﷺ نے أم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنه سے نکاح فرمایا جب کہ انکی عمر مبارک 6 سال تھی، مگر اسی وقت رخصتی نہیں کی گئی، جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنه کی عمر 9 سال کی ہوئی تب آپکی رخصتی ہوئیاب سوال یہ ہے کہ، جس وقت آپکی رخصتی ہوئی ہے اسوقت کیا حضرت عائشہ ابھی نابالغ بچی تھیں….؟؟؟
نہیں بلکہ ملک عرب کے موسم اور وہاں کی ترتیب کے حساب سے وہ عمر بچیوں کی رخصتی کے لئیے قابل قبول عمر تھی…تاریخ اور جدید سائنس : اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ بلوغت کی عمر مختلف زمانے اور مختلف علاقوں کے حساب سے مختلف ہوتی رہی ہے…
موجودہ سائنسی تحقیقات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ” لڑکیاں مکمل بلوغت کی عمر کو 9 سے 15 سال کی عمر کے درمیان کسی بھی وقت پہنچ سکتی ہیں. ”
( http://www.livescience.com/1824-truth-early-puberty.html )“The average temperature of the country is considered the chief factor with regard to Menstruation and Sexual Puberty”
(Women : An Historical, Gynecological and Anthropological compendium, Volume I, Lord and Brandsby , 1998, p. 563)ترجمہ : “کسی بهی علاقے کی بچیوں کے ایام حیض کے شروعات اور ازدواجی بلوغت کی عمر کو پہنچنے میں اس ملک کا اوسط” جو درجہ حرارت ہے، وہ اہم کردار ادا کرتا ہے.”
ان سارے دلائل کی روشنی میں اگر اس واقعہ کو دیکھیں تو یہ اشکال کہ أمی عائشہ رخصتی کے وقت نابالغ بچی تھیں، بلکل ختم ہوجاتا ہے. اور ان سارے واقعات اور تاریخی پس منظر کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو کسی کو بهی اس نکاح پر اعتراض کرنے کا کوئی بھی موقع باقی نہیں رہتا….
ہاں! اگر کسی کے دل میں پہلے ہی سے مرض ہو تو اسے کوئی کچھ نہیں کرسکتا…
قوله تعالى:
﴿ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴾
سورة: (البقرة) الآية: (10)
“ان کے دلوں میں مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا.”اس نکاح کی عظیم حکمت :
تو اس نکاح کے پیچھے کیا حکمت تھی. ..؟؟؟
ہمارا خالق، ہم کو سب کو پیدا کر نے والا سب چیزوں کو سب سے بہتر جاننے والا ہے.
حضرت عاشہ رضی اللہ تعالٰی عنه سے آپ ﷺ نے نکاح، اللہ تبارک وتعالى کے حکم کی تعمیل میں کیا تھا.
( صحیح البخاری، جلد 5، کتاب 58، حدیث 235 )
سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنه نے، اللہ کے حبیب ﷺ کی 2200 سے زاید احادیث ہم تک پہنچائی ہیں. حضرت عائشہ رضی اللہ عنه غیر معمولی ذہین تھیں اور بہت بہترین قوت حفظہ کی مالک تھیں. اور چونکہ کم عمری میں ہی انکی شادی اللہ کے نبی ﷺ سے ہوگئی تھی، تو انہیں آپ ﷺ سے بہت سارا علم حاصل کرنے کا موقع مل گیا. جس کی بدولت آگے چل کر انہوں نے ایک بہت بہترین استاد، ماہر اور فقیہ کا کردار ادا کیا. تو اس شادی کے پیچھے بڑی حکمتیں پوشیدہ تھیں.حضرت محمد ﷺ دنیا کی آسائش اور اسکی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئیے دنیا میں تشریف نہیں لائے بلکہ آپنے ہمیشہ اپنے آپ کو دنیا کی زیب و زینت اور اسکی لذتوں سے دور رکھا، اور اپنی امت کو بھی اسکے دھوکے سے ڈرایا.
جتنے بھی نکاح آپ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں فرمائے وہ مردوں والے شوق کی شادیاں نہیں تھیں، بلکہ وہ حکم الہی اور حکمت خداوندی کی بنیاد پر تھیں..ورنہ ایک ایسا حسین و جمیل، اجمل و اکمل، ابحا و انور، اعلی و انسب، تونا اور خوبصورت نوجوان، جس جیسا کسی کی آنکه نے نہ دیکها ہو، وہ اپنی عین بھر پور جوانی کے ایام اپنے سے 15 سال بڑی ایک ہی بیوی کے ساتھ کیسے گزاسکتا تها …؟؟
وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني, وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ. خلقتَ مبرءاً منْ كلّ عيبٍ, كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ.
آپ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا.
آپ جیسا جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا.
آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے
آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے خود آپنے اپنے لئیے چاہااللَّهمَّ صلِّ وسلِّم وبارك عليه، عدد خلقك.. ورضا نفسك، وزِنَةَ عرشِكَ، ومدادَ كلماتِك، اللَّهمَّ صلِّ وسلِّم وبارك عليه عدد ما خلقتَ، وعدد ما رزقتَ، وعدد ما أحييتَ، وعدد ما أَمتَّ.
بتاریخ : 15 شعبان 1438…
11 May 2017.خلاصہ گفتگو
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانی زندگی کے مختلف ادوار میں سماجی ذمہ داریوں کا بوجھ بہت ابتدائی عمر میں اٹھایا جاتا تھا۔ جب اوسط عمر محض 35 یا 40 سال کے قریب ہوتی تھی، اور تعلیم کا کوئی طویل یا رسمی نظام موجود نہ تھا جیسا کہ آج کے اسکول یا یونیورسٹی کی صورت میں ہے، تو انسان بہت جلد عملی زندگی میں قدم رکھتا تھا۔ لڑکے اور لڑکیاں بلوغت کو پہنچتے ہی سماجی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل سمجھے جاتے تھے، جیسے روزگار، خاندانی امور، اور گھر کی کفالت۔ اسی سیاق و سباق میں شادی بھی ایک قدرتی اور ضروری مرحلہ تصور کی جاتی تھی، جو نہ صرف جنسی خواہشات کی حدود میں رکھتی تھی بلکہ ایک مضبوط سماجی ڈھانچے کی بنیاد بھی بنتی تھی۔ اس لیے اس دور میں کم عمری میں شادی کو نہ صرف قبول کیا جاتا تھا بلکہ اسے ایک سماجی اصول اور ضرورت سمجھا جاتا تھا، کیونکہ زندگی محدود تھی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نکاح کے وقت 6 سال اور رخصتی کے وقت 9 سال تھی، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے۔ یہ نکاح اُس زمانے کے سماجی اور ثقافتی پس منظر میں عام اور قابلِ قبول تھا۔ اس وقت کے معاشروں میں بلوغت کے بعد شادی معمول کی بات تھی، اور عمر کے بجائے بلوغت کو شادی کے لیے معیار سمجھا جاتا تھا
اس دور کی کچھ اور مثالیں
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح کیا۔ مختلف روایات کے مطابق، اس وقت ام کلثوم کی عمر 10 سے 12 سال کے درمیان تھی، اور بعض روایات میں اس سے بھی کم عمر کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت عمر کی عمر اس وقت تقریباً 58 سال تھی۔ یہ نکاح 637–638 عیسوی کے درمیان ہوا۔
تاریخی روایات کے مطابق، معاویہ بن ابی سفیان نے اپنی نو سالہ بیٹی ہند کا نکاح عبداللہ بن عامر بن کریز سے کیا۔
حضرت عروہ بن زبیر اور حضرت فاطمہ بنت عبدالرحمن
لڑکی کی عمر: تقریباً 10-12 سال
مرد کی عمر: تقریباً 30 سال
حوالہ: کتب سیرحضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حفصہ بنت عبدالرحمن
لڑکی کی عمر: تقریباً 11-13 سال
مرد کی عمر: تقریباً 20-22 سال
حوالہ: الاستیعاب فی معرفۃ الاصحابحضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عائشہ بنت طلحہ
لڑکی کی عمر: تقریباً 12-14 سال
مرد کی عمر: تقریباً 20-25 سال
حوالہ: تاریخ الاسلام از ذہبیحضرت عبداللہ بن جعفر اور حضرت زینب بنت علی
لڑکی کی عمر: تقریباً 13-15 سال
مرد کی عمر: تقریباً 25-30 سال
حوالہ: الاصابہ فی تمییز الصحابہحضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت لبابہ بنت عبیداللہ
لڑکی کی عمر: تقریباً 12-14 سال
مرد کی عمر: تقریباً 20-22 سال
حوالہ: تاریخ دمشقحضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت تماضر بنت الاصبغ
لڑکی کی عمر: تقریباً 13-15 سال
مرد کی عمر: تقریباً 50-55 سال
حوالہ: الطبقات الکبری از ابن سعددیگر قدیم تہذیبیں
• یونان و روم: قدیم یونان اور روم میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 12 سے 14 سال کے درمیان تھی۔
• قرونِ وسطیٰ یورپ: 12ویں صدی میں کلیسائی قانون کے مطابق لڑکیوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 12 سال اور لڑکوں کے لیے 14 سال مقرر تھی۔
• برطانیہ: انگلینڈ میں 1275 کے قانون کے تحت لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر 12 سال تھی۔
امریکہ میں شادی کی عمر
19ویں صدی میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں شادی کی قانونی عمر 10 سے 14 سال کے درمیان تھی۔ مثلاً، 1880 میں 37 ریاستوں میں رضامندی کی عمر 10 سال تھی، جبکہ ڈیلاویئر میں یہ عمر 7 سال تھی۔اسلام میں شادی کے لیے عمر کی کوئی مخصوص حد مقرر نہیں کی گئی۔ بلکہ، شادی کے لیے بنیادی شرط بلوغت ہے، جو مختلف افراد اور علاقوں میں مختلف عمر میں حاصل ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ النساء (4:6) میں یتیموں کے نکاح کے لیے “رشد” یعنی بلوغت اور سمجھ بوجھ کی شرط رکھی گئی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں شادی کے لیے جسمانی اور ذہنی بلوغت دونوں ضروری ہیں۔
عددی عمر کا تعین نہیں کرتا، لیکن یہ ذمہ داری اور تیاری کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
’’اور تم میں سے غیر شادی شدہ اور اپنے غلاموں اور غلاموں میں سے نیک لوگوں کا نکاح کر دو ۔‘‘ (سورۃ النور، 24:32
یہ آیت اس وقت شادی کرنے کی ترغیب پر روشنی ڈالتی ہے جب کوئی شخص قابل ہو، صرف عمر کے بجائے کردار اور راستبازی پر توجہ مرکوز کرے۔
ایک اور آیت فیصلہ سازی میں پختگی پر زور دیتی ہے’’ اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ وہ شادی کی عمر کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان میں عقلمندی محسوس کرو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ۔‘‘ (سورہ نساء، 4:6
یہ آیت شادی کی عمر کو پختگی (رشد) سے جوڑتی ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ تیاری جسمانی نشوونما سے بڑھ کر فکری اور جذباتی صلاحیت تک پھیلی ہوئی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں شادی کی عملی مثالیں پیش کیں، تیاری اور باہمی افہام و تفہیم پر زور دیا۔ عام طور پر نقل شدہ حدیث ہے:
’’اے نوجوانو، تم میں سے جو لوگ بیوی کی کفالت کر سکتے ہیں وہ نکاح کر لیں، کیونکہ یہ نگاہوں کو روکتا ہے اور عفت کو محفوظ رکھتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
یہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ جب کوئی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہو تو شادی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسکالرز نوٹ کرتے ہیں کہ صلاحیت میں جسمانی، مالی اور جذباتی تیاری شامل ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو، وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نظر کو نیچا رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اور جو نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ روزہ رکھے، کیونکہ روزہ اس کے لیے خواہشات کو دبانے والا ہے۔”
یہ حدیث صحیح بخاری میں حدیث نمبر 5066 کے تحت موجود ہے۔
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے نوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دی ہے، کیونکہ نکاح انسان کو نگاہوں کی حفاظت اور پاکدامنی میں مدد دیتا ہے۔ اور جو نوجوان نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے، انہیں روزہ رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے، کیونکہ روزہ انسان کی جنسی خواہشات کو کمزور کرتا ہے اور اسے گناہوں سے بچاتا ہے۔
رضامندی اسلامی شادی کی بنیاد ہے۔ دونوں فریقین کو رضامندی سے اتفاق کرنا چاہیے، کیونکہ زبردستی کی شادیاں اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”پہلی شادی شدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے، اور کنواری کی رضامندی لینی چاہیے۔یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جہاں سرپرست شادی کو آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، ان کی شمولیت کو دولہا اور دلہن کی رضامندی سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
اسلام شادی کے لیے کوئی سخت عمر نہیں لگاتا بلکہ انفرادی حالات پر توجہ دیتا ہے۔ کم عمری کی شادیاں جائز ہیں اگر دونوں فریق بالغ ہوں اور ازدواجی فرائض نبھانے کے قابل ہوں۔ تاہم، تعلیم یا دیگر ذاتی اہداف کو ترجیح دینے کے لیے شادی میں تاخیر بھی اسلامی ہدایات کے تحت قابل قبول ہے۔
حضرت ابو حاتم مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام لے کر آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو، تو اس کا نکاح کر دو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔”
یہ حدیث سنن ترمذی میں حدیث نمبر 1085 کے تحت موجود ہے، اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے “حسن غریب” قرار دیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا دین اور اخلاق پسندیدہ ہو تو اس کا نکاح کر دینا چاہیے۔ اگر بغیر کسی شرعی وجہ کے نکاح کو مؤخر کیا جائے یا رد کیا جائے تو اس سے معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا ہو سکتا ہے، جیسے کہ زنا، بدکاری، اور دیگر اخلاقی برائیاں۔
لہٰذا، جب جسمانی اور زہنی بلوغت کے بعد کوئی مناسب رشتہ آئے اور اس میں دین و اخلاق کی خوبی ہو، تو اس کو قبول کرنا معاشرتی بھلائی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔اسلام شادی کی عمر کے لیے رہنما اصول وضع کرتا ہے یعنی لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے 1) بلوغت 2) ذہنی پختگی اور 3) صرف لڑکوں کے لیے کہ بیوی کی ذمہ داری اٹھانے کی مالی صلاحیت اور مرد روزے رکھے جب تک مالی طور پر اس قابل نہ ہو جاےِ۔
ماہرین کی رائے کی بنیاد پر حکومت ہر ملک میں کم از کم عمر کا تعین کر سکتی ہے جو جسمانی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ذہنی پختگی کے لیے بھی موزوں ہو۔ مالی صلاحیت کے لیے مرد اور عورت خود طے کر سکتے ہیں۔ اور اسلام میں یہ دونوں کے درمیان پہلے سے موجود ہے کیونکہ لڑکی کو اپنے حق مہر کے لیے کوئی بھی رقم مانگنے کی اجازت ہے۔ اگر آدمی یہ نہ ادا کر سکے تو کوئی اور عورت تلاش کرے جو کم حق مہر پر راضی ہو۔
00-
This topic was modified 1 month ago by
Big Man.
-
This topic was modified 1 month ago by
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.