حاجی صاحب اور چوہدری صاحب

Viewing 2 posts - 1 through 2 (of 2 total)
  • Author
    Posts
  • #10782

    Big Man
    Participant

    حاجی صاحب کے پانچ بچے ہیں۔ تین بیٹے اور دو بیٹیاں ۔ حاجی صاحب کے گھرانے کےاپنے ذیادہ تر ہمسائیوں سے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ اس لیے بڑا بیٹا گھر کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ باقی دونوں بیٹے اور بیٹیاں گھر کیلئے کمائی کرتے ہیں ۔ حاجی صاحب گھر کے سربراہ ضرور ہیں مگر گھر میں حکم حاجی صاحب کے بڑے بیٹے کا ہی چلتاہے۔ حاجی صاحب اور ان کے بڑے بیٹے کے تعلقات بھی خراب ہی رہتے ہیں۔ بلکہ ایک بار حاجی صاحب کے بیٹے نے اُن کومعزول کر کے ان کے بھائی کے پاس بھیج دیا تھا ۔ اور اس پر گھر کے کسی فرد نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔حاجی صاحب کے گھر کا خرچ باقی چاروں بچوں کی کمائی پر چلتا ہے۔ لیکن ان کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے گھر میں ان کی کوئی عزت نہیں ہے۔ حاجی صاحب اور بڑا
    بیٹا ان میں سے جس کے بھی ساتھ جیسا دل کرتا ہے ویسا سلوک کرتے ہیں۔

    حاجی صاحب یہ چاہتے ہیں کہ گھر میں اُن کے آ گے کوئی بھی نہ بولے۔اُن کی بات کو حرفِ آخر سمجھا جائے۔ اپنے ہمسائیوں سے وہ خود معاملات طے کریں۔ گھر کے سربراہ کے طور پر حاجی صاحب کی بات ٹھیک لگتی ہے۔ حا جی صاحب کا بڑا بیٹا چونکہ گھر کی حفاظت کرتاہے،لہذا وہ چاہتا ہے کہ ہمسائیوں کے ساتھ وہ خود بات کرے۔ حاجی صاحب کے چاروں چھوٹے بچے بس اتنا چاہتے ہیں کہ گھر میں سلوک ہو۔ تاکہ جب وہ گھر سے باہر جائیں تو کوئی اُن کا مذاق نہ اُڑائے کہ اُن کے گھر میں تو ہر وقت لڑائی ہی ہوتی رہتی ہے۔

    اب ہم چوہدری صاحب کے گھرانے کی طرف آ تے ہیں۔ حاجی صاحب کی طرح اُن کے بھی پانچ بچے ہیں۔ تین بیٹے اور دو بیٹیاں۔ گھر اور ہمسائیو ں کے حالات بھی حاجی صاحب سے ملتے جُلتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ چوہدری صاحب کے گھر میں اُن کی بہت عزت ہے۔ اُ ن کی بات ہر معاملے میں حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے۔ لیکن چوہدری صاحب کے گھر کے حالات ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ کچھ سال پہلے تک چوہدری صاحب کے گھر کے حالات بھی بالکل حاجی صاحب کے گھر جیسے ہی تھے۔ حتٰی کہ چوہدری صاحب کے بڑے بیٹے نےچوہدری صاحب کو گھر سے بے دَخل کر دیاتھا۔ اور اُ ن کے کسی بچے نے چوہدری صاحب کا ساتھ نہیں دیاتھا۔ اِس بات پر ہم بعد میں آئیں گے کہ چوہدری صاحب کے گھر کے حالات کیسے تبدیل ہوئے ۔ لیکن اب چوہدری صاحب کے گھر کا یہ حال ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جب ایک بار پھر چوہدری صاحب کے بڑے بیٹے نے اُ ن کو معزول کرنے کی کوشش کی تو اُ ن کے چاروں بچوں نے ڈَٹ کر چوہدری صاحب کا ساتھ دیا۔ چوہدری صاحب کے چاروں چھوٹے بچوں نے بڑے بھائی کو صاف کہہ دیا کہ چوہدری صاحب کو معزول کرنے کیلئے اُسے اُن کی لاشوں سے گزرنا ہوگا۔ لہذا چوہدری صاحب کے بڑے بیٹے کو نہ چاہتے ہوئے بھی چوہدری صاحب کے آگے سَر جھکانا پڑا۔ حاجی صاحب چوہدری صاحب کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اور گھر میں اکثر سب کو کہتے ہیں کہ چوہدری صاحب کو دیکھو ، یہ ہوتا ہے گھر کے سر براہ کا مقام۔

    اب ہم کہانی کے دوسرے رُخ کی طرف آتے ہیں۔ چوہدری صاحب کو جب پہلی بار اُ ن کے بیٹے نے گھر سے بے دخل کیا تو اُ ن کی کافی رسوائی ہوئی اور اُن کو کافی دکھ ہوا کہ اُن کے گھر میں کسی نے بھی اُن کا ساتھ نہیں دیا۔ بلاآخر محلے کے کچھ لوگوں نے چوہدری صاحب اور ان کے بیٹے میں صلح کروائی اور چوہدری صاحب گھر میں واپس آ ئے۔ اُس دن چوہدری صاحب نے تہیہ کیا کہ اب اُن کے ساتھ دوبارہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اس کے لیے چوہدری صاحب نے غصہ کرنے کی بجائےحالات کا ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لیا۔ چوہدری صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ طاقت میں اپنے بڑے بیٹے کا مقا بلہ نہیں کر سکتے۔ اُن پر یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ گھر میں اپنی عزت حاصل کرنے کے لیے انہیں چھوٹے بچوں کا دل جیتنا ہو گا۔ اُس دن کے بعد سے چوہدری صاحب نے ساری توجہ اپنے چھوٹے چاروں بچوں پر مذکور کر لی۔

    چوہدری صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا اور بیٹی کالج کے طالب علم تھے۔ او ر شام میں ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ دوسرا بیٹا اور بیٹی گریجوایشن کے بعد پیسے نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی موٹی نوکری کر رہے تھے۔ چوہدری صاحب نے کچھ قرض لے کر دونوں چھوٹے بچوں کو اچھے کالج میں داخلہ دلوا دیا، اور دوسرے بیٹے اور بیٹی کو حوصلہ دیا کہ وہ مقابلے کے امتحان کی تیاری کریں۔ اِن سب چیزوں سے چوہدری صاحب کے چاروں بچوں کے دِلوں میں چوہدری صاحب کے لیے عزت پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اِس دوران ایک دو بار پھر چوہدری صاحب اور اُن کے بڑے بیٹے کے درمیان کھٹ پھٹ ہوئی لیکن چوہدری صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر کیا اور اپنی ساری توجہ چھوٹے چاروں بچوں کی بہبود پر مذکور رکھی۔ یہ ایک صبر آزما کام تھا اور چوہدری صاحب کو ایک دو سال نہیں بلکہ پورے دس سال صبر کرنا پڑا۔ لیکن اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چوہدری صاحب کے چاروں چھوٹے بچے زندگی میں کامیاب ہوگئے۔ اس کی وجہ سے گھر کی آمدنی اچھی خا صی بڑھ گئی۔ چوہدری صاحب نے بچوں کے لیے جو قرض لیا تھا، وہ سب آسانی سے اُتر گیا۔

    پھر دس سال کے صبر آزما انتظار کے بعد وہ دن بھی آ گیا ،جس کا چوہدری صاحب کو انتظار تھا۔ ہوا اِس طرح کہ ایک دن چوہدری صاحب نے اعلان کیا کہ آج سے گھر کے اور ہمسائیوں کے معاملات میں دیکھا کروں گا۔ یہ بات سن کر چوہدری صاحب کے بڑے بیٹے نے اِ س بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور چوہدری صاحب کو پھر سے گھر سے معزول کرنے کی کو شش کی۔ لیکن اس بار چوہدری صاحب کے چاروں چھوٹے بچے تَن کر بڑے بیٹے کے آگے کھڑے ہو گئے ۔ یہ سب چوہدری صاحب کے بڑے بیٹے کے لیے غیر متوقع تھا۔ لیکن مجبوری میں اُسے چوہدری صاحب کے آگے سر جھکانا پڑا۔

    حاجی صاحب کا مسئلہ صبر کی کمی ہے۔ وہ چوہدری صاحب جیسی عزت تو چاہتے ہیں مگر دس سال صبر کرنےکو تیار نہیں ہیں۔ حاجی صاحب کا حال یہ ہے کہ اُنہوں نے بھی چوہدری صاحب کی دیکھا دیکھی بچوں کے لیے کافی قرض لیا لیکن قرض کی رقم کو بچوں کی فلاح پر خرچ کرنے کی بجائے اپنی عیاشیوں میں خرچ کر دیا۔ پچھلے سال حاجی صاحب کی طبیعت خراب ہوئی تو بچوں کے قرض کے پیسوں سے اپنا علاج کروانے لندن چلے گئے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حاجی صاحب کے چھوٹے بچوں کی آمدنی تو کیا بڑھنی تھی، بلکہ موجودہ آمدنی کا بھی بڑا حصّہ قرض کی ادائیگی میں جانا شروع ہو گیا۔

    حاجی صاحب کی کہانی نواز شریف اور چوہدری صاحب کی کہانی ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ 2003 میں جب طیب اردگان وزیراعظم بنے تو ترکی کا یہ حال تھا کہ فوج کو باقاعدہ آئینی کردار حاصل تھا۔ اِس سے پہلے کئی بار ترکی میں بھی مارشل لاء لگ چکے تھے۔ بلکہ 1960 میں منتخب وزیراعظم کو مارشل لاء میں پھانسی بھی دی جا چکی تھی۔ اِن سب حالات میں طیب اردگان جب 2003 میں وزیراعظم بنے تو انہوں نے اگلے دس سال صرف اور صرف عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے میں گزارے۔ آرمی اور عدلیہ سے کسی بھی معاملے پر الجھنے سے پرہیز کیا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترکی میں اوسط آمدنی جو 2003 میں $9430 تھی وہ حیران کُن طور پر2013 میں $22110 ڈالر ہو گئی۔ اس کی وجہ سے طیب اردگا ن کو زبردست عوامی حمایت حاصل ہو گئی۔ لہذا جب طیب اردگان تیسری بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے آئینی ترمیم کر کے آرمی کے آئینی کردار کو ختم کر دیا۔ اِس کے بعد 2016 میں آرمی نے جب مارشل لاء کی کوشش کی تو عوام کا سمندر سڑکوں پر نکل آیا اور حقیقی طور پر لوگوں نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر جانیں دیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوجی بغاوت ناکام ہو گئی۔

    نواز شریف بھی طیب اردگان والی عزت چاہتے ہیں ، لیکن اُن کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر بار اپنی پہلی باری میں ہی وہ کام کرنا چاہتے ہیں جن کے لیے طیب اردگان نے دس سال صبر کے ساتھ تیاری کی ۔ اور جو کام طیب اردگان نے پہلی باری میں کیے وہ کام نواز شریف بالکل نہیں کرتے۔ مگر یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ اُ ن کو ہر دفعہ پہلی باری میں نکالے جانے پر عوام اُ ن کے لیے سڑکوں پر اُسی طرح نکلے جس طرح طیب اردگان کے لیے اُن کی عوام تیسری باری میں مارشل لاء کے خلاف نکلی تھی۔

    1

    0
    #10879

    Big Man
    Participant
Viewing 2 posts - 1 through 2 (of 2 total)

You must be logged in to reply to this topic.