Forum
بوٹا مالی
-
AuthorPosts
-
June 23, 2018 at 12:38 am #10845
بوٹا مالی کے گھرانے میں تین افراد ہیں۔ وہ خود ، اُس کی بیوی اور اکلوتا بیٹا۔ بوٹا مالی کے گھر کے صحن میں ایک خاص قسم کا پودا ہے۔ اس پودے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پانچ سالوں کے بعد ایک بار پھل دیتا ہے۔ مزید یہ کہ پہلے کئی سالوں تک اِس پودے پر بَد ذائقہ پھل لگتے ہیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ اِ س کے پھل کا ذائقہ پھیکا ہوتا ہے اور پھر کہیں جا کر میٹھا ہونا شروع ہوتاہے۔ مختصر یہ کہ اس پودے سے میٹھا پھل حاصل کرنے کے لیے کافی صبر کرنا پڑتا ہے۔ پودے کی دیکھ بھال بوٹا مالی کے سپرد ہے۔
بوٹا مالی کے گھر کے پودے کا یہ حال ہے کہ کئی سالوں کے بعد بھی پودا ابھی تک اسی حالت میں ہے کہ اس پر بد ذائقہ پھل ہی لگ رہے ہیں۔ حالانکہ بوٹا مالی کے ہمسائے کے گھر میں بھی یہی پودا اُتنا ہی پرانا ہے، لیکن ہمسائے کے گھر میں اس پودے پر لگنے والے پھل کا ذائقہ میٹھا تو نہیں ہوا لیکن بوٹا مالی کے گھر کے پودے سے بہتر ضرور ہو چکا ہے۔
اب ہم اس بات پر آتے ہیں کہ بوٹا مالی اور اُس کے ہمسائے کے پودے کے پھلوں میں فرق کیوں ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ بوٹا مالی کے بیٹے کی بے صبری ہے۔ بوٹا مالی کے بیٹے کا خیا ل ہے کہ بوٹا مالی اس پودے کا صحیح طرح سے خیال نہیں رکھتا، اور اگر بوٹا مالی اس پودے کا صحیح طرح سے خیال رکھے تو یہ پودا جلدی میٹھا پھل دینا شروع کر دے۔ بوٹا مالی کے بیٹے کی یہ بات ٹھیک بھی ہے کیونکہ ہر پانچ سال کے بعد بد ذائقہ پھل کھانے کے بعد بھی بوٹا مالی کا رویہ کچھ خاص تبدیل نہیں ہوتا ہے۔ اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے کہ جب پانچ سال کے بعد پودا بد مزہ پھل دے تو بوٹا مالی کو کھا د تبدیل کرنی چاہیے، اور کچھ پرانے پتوں کی تراش خراش کرنی چاہیے۔ تاکہ اگلے پانچ سال کے بعد پھل کا ذائقہ کچھ بہتر ہو سکے۔
چونکہ پودے کی نشو ونما بہت آہستہ ہوتی ہے اور پھر پانچ سالوں کے بعد جا کر ایک بار پھل لگتا ہے، لہذا جب بھی دوسری دفعہ پودے پر بد ذائقہ پھل لگتا ہے تو بوٹا مالی کے بیٹے کا صبر جواب دے جاتا ہے۔ اور وہ پھر پرانے پودے کو اکھاڑ پھینکتا ہے۔ بوٹا مالی کی بیوی بھی اپنے بیٹے کا ساتھ دیتی ہے۔ خو د بوٹا مالی بھی دو بار بد مزہ پھل کھا چکا ہوتا ہے، لہذا وہ بھی پرانے پودے کے اکھاڑے جانے پر کچھ خوش ہی ہوتا ہے۔
اِس کے بعد بوٹا مالی کا بیٹا خود سے ایک پودا یہ کہہ کر لگاتا ہے کہ یہ نہ صرف بہت جلدی پھل دے گا ، بلکہ اِس پر پھل پہلی ہی بار میں میٹھا لگے گا۔ اِس کے بعد ہوتا یہ ہے کہ بوٹا مالی کے بیٹے کا لگایا ہوا پودا نہ صر ف بہت تیزی سے بڑھتا ہے،بلکہ اس پر پھل پہلی ہی بار میں میٹھا ہی لگتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر بوٹا مالی کا بیٹا بوٹا مالی کو کہتا ہے کہ دیکھو میرا لگایا ہوا پودا کس قدر بہتر ہے، اور اِس نے پہلی ہی بار میٹھا پھل دے دیا ہے۔ بوٹا مالی کو بھی یہ سب دیکھ کر اپنے بیٹے کی بات ٹھیک لگتی ہے۔
لیکن اِس کے بعد ہوتا یہ ہے کہ بوٹا مالی کے بیٹے کا لگایا ہوا پودا دوسری بار پھل دینے سے پہلے ہی مرجھا نا شروع کر دیتا ہے۔ چونکہ اِس پودے کا سارا انتظام بوٹا مالی کے بیٹے کے پاس ہوتا ہے اور بوٹا مالی اِسے ہاتھ تک نہیں لگا سکتا تو کچھ عرصے کے بعد بوٹا مالی بھی اس پودے سے بیزار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ آخر میں یہ ہوتا ہے کہ بوٹا مالی کے بیٹے کی ہزار کوششوں کے باوجود پودا دوسری بار پھل دینے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد بوٹا مالی کو پھر سے اپنے پرانے والا پودا لگانا پڑتا ہے۔
بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی، بوٹا مالی اور بوٹا مالی کا بیٹا یہ کام ایک دو بار نہیں بلکہ چار بار کر چکے ہیں۔ اس کی وجہ سے بو ٹا مالی کے گھر کا پودا نہ صرف اپنے ہمسائے کے پودے سے چھوٹا ہے، بلکہ بوٹا مالی اور اُس کے بیٹے کو ابھی تک بد ذائقہ پھل ہی کھانے پڑ رہے ہے۔
بوٹا مالی کی کہانی پاکستان کی کہانی ہے۔ جس میں بوٹا مالی پاکستان کی عوام، اور بوٹا مالی کا بیٹا پاکستان کی فوج ہے۔ جبکہ پودا پاکستان کی جمہوریت ہے، اور اِس پر لگنے والے بد ذائقہ پھل پاکستان کے موجودہ سیاست دان ہے(بوٹا مالی کی بیوی کا ذکر بعد میں ہو گا)۔ چار دفعہ جو اِس پودے کو اکھاڑ پھینکا گیا’ وہ پاکستان میں لگنے والے چار مارشل لاء ہیں۔ بوٹا مالی کا ہمسایہ انڈیا ہے، جہاں یقینًا ترقی یافتہ ممالک جیسی جمہوریت تو نہیں ہے لیکن کم از کم اتنی بہتر ہو چکی ہے کہ وہا ں الیکشن کے لیے نگران حکومت نہیں بنانی پڑتی ہے۔
اس کہانی میں ہر ایک کے لیے سبق ہے۔ بوٹا مالی کے بیٹے (پاکستان کی فوج) کی بات بالکل ٹھیک ہے کہ جمہوریت کا پودا بد مزہ پھل (رشوت خور سیاست دان) دے رہا ہے۔ اور بوٹا مالی (عوام) ہر پانچ سال بعد بھی رشوت خور سیاست دانوں کو ووٹ دیتے ہیں تو جمہوریت کا پودا میٹھا پھل (اچھے سیا ست دان) کیسے دے گا؟۔۔۔ اِ س کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ صحیح اعتراض کے باوجود جمہوریت کے پودے کو بڑھنے دینا چاہیے، کیونکہ چار دفعہ کے تجربے (مارشل لاء) سے یہ صاف ظاہر ہے کہ چونکہ مارشل لاء کے پودے کا بوٹا مالی (عوام) سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لہذا ہر بار عوام جو مارشل لاء لگنے پر میٹھائیاں بانٹتے ہیں ٗ وہی کچھ سالوں کے بعد پرانے پودے (جمہوریت) کو مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بوٹا مالی (عوام) اور اُس کے بیٹے (فوج) کے تعلقات نہ صرف خراب ہوتے ہیں، بلکہ ہر مارشل لاء کی تیز ترقی مارشل لاء کا خاتمہ ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اور ہر مارشل لاء کے بعد حالات مارشل لاء کے لگنے سے پہلے کے حالات سے بھی ذیادہ خراب ہو چکے ہوتے ہیں۔
بوٹامالی (عوام) کو کوئی نہیں سمجھا سکتا ۔ چار دفعہ مارشل لاء پر میٹھا ئیا ں بانٹنے اور پھر چاروں دفعہ بعد میں جمہوریت مانگنے کے بعد اس کا حل صرف یہی ہے کہ اسے بار بار بد ذائقہ پھل کھانے دیا جائے۔ یہ بات بھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہے کہ بوٹا مالی کو بار بار بد ذائقہ پھل کھانے کے بعد بھی عقل نہیں آ رہی ۔ یہ بوٹا مالی ہی ہے ، جس نے پچھلی بار کے بد مزہ پھل (پیپلز پارٹی کی حکومت) کے بعد جمہوریت کے پودے کی اِ س طرح سے تراش خراش کی کہ پیپلز پارٹی کے بد ذائقہ پھل کو بُری طرح سے اُٹھا کر دور (اندرونِ سندھ) پھینک دیا۔ امید ہے کہ اگلے الیکشن کے بعد بوٹا مالی (عوام) مسلم لیگ (ن) کو بھی اُٹھا کر اندرونِ پنچاب پھینک دے گا۔ جمہوریت کے پودے کو بس بوٹا مالی (عوام) کے پاس رہنے دیں اور یہ خود ہی اِس کی تراش خراش کرتے رہیں گے۔
جمہوریت کے پودے کے بد ذائقہ پھلوں (رشوت خور سیاست دانوں) کے لیے یہ ایک ہی سبق ہے کہ جب تک وہ اپنا ذائقہ اچھا نہیں کریں گے، انہیں بوٹا مالی اور اس کا بیٹا چکھ کر تھوکتے ہی رہیں گے، اور اُن کی کوئی عزت نہیں ہو گی۔
بوٹا مالی کی بیوی پاکستان کی عدلیہ ہے۔ بوٹا مالی کی بیوی (عدلیہ) کا کہانی میں بس اتنا ذکر کافی ہےکہ اپنے بیٹے سے لاڈ اپنی جگہ ، لیکن وہ اپنے بیٹے کو جمہوریت کے پودے کو اب دوبارہ کبھی نہ اکھاڑنے دے۔ کیونکہ کسی بھی گھر کی طرح بوٹامالی کے گھر میں بھی اس کے آگے کوئی نہیں بول سکتا۔
10 -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.