Forum
اسلام میں محرم اور نا محرم کے مصافہ کے بارے میں علمی گفتگو
-
AuthorPosts
-
May 28, 2025 at 1:06 am #16368
غیر محرم مرد اور عورت کے باہمی مصافے کے بارے میں راے جو اسے مکمل حرام قرار دیتے ہیں
“يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا”
“اے نبی کی بیویوں! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو (نامحرم مردوں سے) نرم لہجے میں بات نہ کرو، کہیں وہ شخص جس کے دل میں بیماری ہے، لالچ میں نہ پڑ جائے، اور تم معروف طریقے سے بات کرو۔”1. تفسیر ابن کثیر: ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اگرچہ خطاب ازواجِ نبی ﷺ سے ہے، لیکن اس میں تمام مسلمان عورتوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ نرم لہجے میں بات نہ کریں تاکہ کسی کے دل میں غلط خیالات پیدا نہ ہوں۔
2. تفسیر قرطبی: امام قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ حکم تمام عورتوں کے لیے ہے، کیونکہ فتنے کا اندیشہ ہر جگہ موجود ہے۔
3. تفسیر طبری: امام طبری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ اگرچہ خطاب ازواجِ نبی ﷺ سے ہے، لیکن اس میں تمام عورتوں کے لیے عبرت ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں احتیاط برتیں۔
4. تفسیر مظہری: اس تفسیر میں بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ حکم تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے تاکہ وہ فتنے سے بچ سکیں۔
5. تفسیر روح المعانی: علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگرچہ خطاب خاص ہے، لیکن حکم عام ہے۔
6. تفسیر جلالین: اس تفسیر میں بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ حکم تمام عورتوں کے لیے ہے تاکہ وہ اپنی گفتگو میں نرمی سے پرہیز کریں۔
7. تفسیر مدارک التنزیل: امام نسفی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ یہ حکم تمام عورتوں کے لیے ہے تاکہ وہ فتنے سے بچ سکیں۔
8. تفسیر فتح القدیر: امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگرچہ خطاب ازواجِ نبی ﷺ سے ہے، لیکن اس میں تمام عورتوں کے لیے نصیحت ہے۔
9. تفسیر احکام القرآن (الجصاص): امام جصاص رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ یہ حکم تمام عورتوں کے لیے ہے تاکہ وہ اپنی گفتگو میں احتیاط برتیں۔
10. تفسیر معارف القرآن: مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگرچہ خطاب ازواجِ نبی ﷺ سے ہے، لیکن اس میں تمام عورتوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں نرمی سے پرہیز کریں۔
11. تفہیم القرآن (سید ابوالاعلیٰ مودودی): مولانا مودودی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ان آیات میں پردہ کے احکام متعارف کروائے گئے ہیں۔ اگرچہ خطاب ازواجِ مطہرات سے ہے، لیکن مقصد تمام مسلمان گھروں میں اصلاحات نافذ کرنا ہے۔ ازواجِ مطہرات کو مخاطب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے گھر سے پاکیزہ طرزِ زندگی کی شروعات ہو تاکہ دیگر مسلمان خواتین بھی اس کی پیروی کریں۔
12. تفسیر ابن عاشور: ابن عاشور رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اگرچہ خطاب ازواجِ مطہرات سے ہے، لیکن اس میں دی گئی ہدایات تمام مسلمان خواتین کے لیے ہیں۔ یعنی نرم لہجے میں بات نہ کرنا اور معروف طریقے سے گفتگو کرنا تمام خواتین کے لیے ہے۔سورۃ الاحزاب کی آیت 32 میں ازواجِ مطہرات کو نرم لہجے میں بات نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ دلوں میں فتنہ پیدا نہ ہو۔ سورۃ الاحزاب میں کچھ احکام صرف ازواجِ مطہرات کے لیے مخصوص ہیں جسے نبی کریم ﷺ کے بعد نکاح کی ممانعت مگر جمہور علما کا اتفاق ہے کہ یہ حکم تمام مسلمان خواتین کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت اور احادیث سے بھی خواتین کے لیے حیا اور گفتگو میں وقار کی تاکید ملتی ہے۔
اس قرآنی آیت میں مسلمان عورتوں کے لیے معاشرت کے اصول بیان کیے گیے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حیا کا تعلق مردوں اور عورتوں دونوں سے ہے لیکن ان آیات میں مسلمان عورتوں کو خاص طور پرمخاطب کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اصول مردوں پر بھی یکساں لاگو ہوتا ہے۔
دو افراد میں ملاقات میں کافی چیزیں ہوسکتی ہیں۔ سلام و دعا، ہاتھ ملانا، گفتگو وغیرہ۔ یہ قرآنی آیت گفتگو کے اصول بیان کرتی ہے۔ گفتگوکے بارے میں یہ آیات جو اصول بیان کرتی ہے اس سے ہاتھ ملانے کے اصول بھی واضح ہوتے ہیں۔ وہ اسطرح کہ جن سے نرم لہجے سے بات تک کرنے کی ممانعت ہو انسے اس سے بھی بڑاعمل ہاتھ ملانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہاتھ ملانا نرم لہجے سے بھی بڑا عمل ہے۔ جسے قرآن میں والدین کے آگے آف تک کہنے کی ممانعت ہے تو اس سے یہ مطلب لیا جاے کہ والدین کو گالی دینا ٹھیک ہے بس اف نہیں کہنا۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔
قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر ایسے اصولی احکام دیے گئے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب کسی کم درجے کے عمل کو منع کیا گیا ہو تو اس سے اعلیٰ درجے کے مشابہ یا زیادہ قریبی عمل کی ممانعت بطورِ اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔ یہ اصول اسلامی فقہ میں “سدّ الذرائع” (ذرائع کا بند کرنا) اور “قیاسِ اولویت” کے تحت معروف ہے۔
ذیل میں قرآنِ مجید کی چند آیات پیش کی جاتی ہیں جو اس اصول کی تائید کرتی ہیں:
سورۃ النور (24:30-31):
“مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں… اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں…”
یہاں بلا تفریق اور نیت کا فرق کیے بغیر نگاہوں کو نیچا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ فتنہ سے بچا جا سکے۔ اگر نظر کی حفاظت واجب ہے تو جسمانی لمس جیسے مصافحہ کی ممانعت بطورِ اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔سورۃ بنی اسرائیل (17:32):
“اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔”
یہاں زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے، یعنی وہ تمام اعمال جو زنا کی طرف لے جا سکتے ہیں، جیسے نا محرم کو دیکھنا، نرم لہجے میں گفتگو، یا جسمانی لمس بشمول مصافحہ ۔ کیونکہ نہ محرم سے براِئی کا آغاز انہی عوامل سے ہوتا ہے۔سورۃ الانعام (6:151):
“اور بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی نہ جاؤ، جو ان میں ظاہر ہوں یا چھپے ہوں۔”
یہاں بے حیائی کے تمام مظاہر سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے، چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ نرم لہجے میں گفتگو بے حیاںَی کے زمرے میں منع ہے، سورۃ الاحزاب کی آیت 32 کا حکم، تو مصافحہ بطور اولی منع ہوا۔سورۃ النور (24:19):
“جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے…”
یہ آیت بے حیائی کے پھیلاؤ کی مذمت کرتی ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسے اعمال جو بے حیائی کا سبب بن سکتے ہیں، جیسے غیر محرم مرد و عورت کا مصافحہ، ان سے بھی اجتناب ضروری ہے۔ان آیات سے یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ جب کسی کم درجے کے عمل کو منع کیا گیا ہو تو اس سے اعلیٰ درجے کے مشابہ یا زیادہ قریبی عمل کی ممانعت بطورِ اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا، اگر نرم لہجے میں بات کرنے، نظریں نیچی رکھنے، بے حیاںی اور زنا کے قریب بھی جانے سے منع کیا گیا ہے تو غیر محرم مرد و عورت کے درمیان مصافحہ جیسے قریبی جسمانی تعلقات سے اجتناب بطورِ اولیٰ لازم ہے۔
اب اس مسلے پر کچھ آحادیث سے مدد لیتے ہیںحضرت امیمہ بنت رُقَیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
“میں نبی ﷺ کے پاس کچھ عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے آئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ‘میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔'”
(سنن ابن ماجہ، حدیث 2874)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان
“اللہ کی قسم! نبی ﷺ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔”
(صحیح بخاری)اسلام کے اسی مزاج کی جھلک اسلام کی آمد کے بعد اسلامی فن تعمیر میں بھی نظر آتی ہے۔
اسلام کی آمد کے بعد خاص طور پر پردے کی آیات نازل ہو جانے کے بعد خواتین کی حیا، پردہ اور نجی زندگی کے تحفظ کے اصولوں کی بنیاد پر گھروں کی تعمیر میں ایسے انتظامات کیے جاتے تھے جن سے مہمانوں اور خواتین کے درمیان براہِ راست اختلاط سے بچا جا سکے۔
نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی اس کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں، جہاں نبی ﷺ نے ہجرت کے بعد قیام فرمایا، مہمانوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص تھی تاکہ اہلِ خانہ کی نجی زندگی متاثر نہ ہو۔ اسی طرح، نبی ﷺ کے گھروں میں بھی خواتین کے لیے مخصوص حصے تھے جہاں ان کی نجی زندگی کا احترام کیا جاتا تھا۔
اسلامی فنِ تعمیر میں بھی اس اصول کو مدنظر رکھا گیا۔ مثلاً، روایتی اسلامی گھروں میں “حریم” (خواتین کا حصہ) اور “سلاملیک” (مہمانوں کا حصہ) کی تقسیم ہوتی تھی۔ یہ تقسیم اس بات کو یقینی بناتی تھی کہ خواتین کی نجی زندگی محفوظ رہے اور مہمانوں کے ساتھ ان کا براہِ راست اختلاط نہ ہو۔
یہ روایت آج بھی کئی مسلم ممالک میں جاری ہے۔ مثلاً، روایتی مسلم گھروں میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ دروازے اور بیٹھنے کے کمرے ہوتے ہیں تاکہ خواتین کی نجی زندگی کا تحفظ کیا جا سکے۔
ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خواتین کی حیا اور نجی زندگی کے تحفظ کے لیے گھروں کی تعمیر میں خصوصی انتظامات کیے جاتے تھے، اور یہ روایت آج بھی مختلف مسلم معاشروں میں جاری ہے۔یہ تمام آیات، احادیث اور اسلامی رہن سہن کی روایات محرم اور نامحرم کے تعلق اور ملنے کے بارے میں اسلام کے عمومی مزاج کو بیان کرتی ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان اسلامی حوالوں سے واضح ہے کہ محرم اور نامحرم کے بلاضروت ایک دوسرے کے سامنے آنے یا بات کرنے کی بھی حوصلہ شکنی کی گَی ہے اور اگر ضرورت کے لیے بات کرنی بھی پڑے تو اس کے آداب تک بھی قران میں بتاے گیے ہیں- لہذا اسلامی فقہ کے چاروں مکاتبِ فکر (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) اور اس کے علاوہ غیر مقلد، اہل تشیع نے بھی غیر محرم مرد و عورت کے درمیان مصافحہ کو ناجائز قرار دیا ہے اور اس معاملےمی٘ں کبھی اختلاف نہیں رہا۔
اسلام کی 1300 سالہ تاریخ میں کوِی ایسا مستنعد یا غیر مستعند عالم یا قرآنی تفسیر نہیں ہے جس نے محرم یا نامحرم کے ہاتھ ملانے کو جایز قرار دیا ہو۔ صرف موجودہ دور میں اس بات کے دلایل سامنے آے ہیں کہ اسلام میں محرم اور نا محرم کے ہاتھ ملانے کہ کوِیی ممانعت نہیں ہے۔
غیر محرم مرد اور عورت کے باہمی مصافے کے بارے میں راے جو اسے مکمل جاِ یز قرار دیتے ہیں
اس بارے میں یوسف القراوی کی راے یہاں دستیاب ہے
https://fiqh.islamonline.net/en/shaking-hands-with-women-an-islamic-perspective/
https://urdufatwa.com/index.php/view/1/23924
یوسف القراوی کی راے پر جوابی دلایل یہ ہیں
حضور ص کے غیر محرم سے ہاتھ نہ ملانے کے عمل کو ذاتی نا پسند اور کھانے پینے کے عام معملات سے جوڑنا درست نہیں کیونکہ اس عمل کی دلالت مندرجہ بالا قرآن کی آیات سے بھی ہوتی ہے۔
یہ حدیث نبی کریم ﷺ کے عمل کی واضح دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے غیر محرم خواتین سے مصافحہ نہیں فرمایا۔ اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 802 میں سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں
“رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔'”یہ قولی ممانعت کی صریح دلیل ہے، جو مندرجہ بالا دعوے کی تردید کرتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا کسی عمل کو ترک کرنا، خاص طور پر جب وہ عمل سلام کے عمومی مزاج کے مطابق ہو تووہ امت کے لیے اس عمل کے ترک کی دلیل ہوتا ہے۔محرم اور نامحرم کے ہاتھ ملانے پر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ حضرت اُم عطیہ انصاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور بیعت کے موقع پر عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔
اس دلیل میں حدیث کا نامکمل حوالہ دیا جاتا ہے۔ مکمل حدیث یہ ہے
صحيح البخاريّ – حدیث 4892
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے، کہا ہم سے ایوب نے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت کی «أن لا يشركن بالله شيئا» کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور ہمیں نوحہ (یعنی میت پر زور زور سے رونا پیٹنا) کرنے سے منع فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ممانعت پر ایک عورت (خود ام عطیہ رضی اللہ عنہا) نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ فلاں عورت نے نوحہ میں میری مدد کی تھی، میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا چنانچہ وہ گئیں اور پھر دوبارہ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔اس حدیث کے بہت سے ترک اس احادیث کی کتب میں بھی ہیں:
صحيح البخاري، 7215
صحيح البخاري، 1306
صحيح مسلم، 2164
صحيح مسلم، 2163
سنن أبي داود، 1139
سنن النسائى الصغرى، 4185کسی روایت میں یہ ذکر نہیں کہ جب ام عطیہ نے اپنا ہاتھ کھنیچا تو وہ رسول اللہ ص کے ہاتھ میں تھا۔ مکرر کہ یہ بات دوسری احادیث سے ثابت کہ کہ رسول اللہ ص نے کسی عورت کا ہاتھ پکڑ کر بعیت کبھی نہیں لی۔
تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی چبھوئی جائے، یہ بہتر ہے اس بات سے کہ وہ کسی ایسی عورت سے”مس” ہو جائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘
اگرچہ امت کے علما کو اس بات پر وسیع اتفاق ہے کہ یہاں “مس” سے مراد ہاتھ لگانا یا مصافہ بھی ہے لیکن اگر معترضین کی یہ بات مان بھی لی جاے کہ یہاں “مس” سے مراد ہم بستری ہے تو کم از کم یہ بات زنا کی سنگینی کو تو ظاہر کرتی ہے۔ اب اس حدیث کو قرآن کے احکامات سورۃ الاحزاب کی آیت 32، سورۃ النور کی آیات 24-31، سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 32 اور سورۃ الانعام کی آیت 6 اور سورۃ النور کی آیت 24 کے ساتھ ملا کر پڑھا جاے تو یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ہر وہ کام جو بدکاری جیسے غطیم گناہ کی طرف جانے کا باعث بھی بن سکتا ہے اس سے بچنا بھی لازم ہے۔ نیت چاہے جتنی بھی اچھی ہو اور دل میں چاہے کوِئئ برا خیال بھی نہ ہو لیکن اس امر کی کوی ضمانت نہیں کہ غیرمحرم ہے مصافہ کے بعد نیت اور دل کی پاکیزگی برقرار رہے گی۔ اسی لیے قرآن نے بے حیاُئَی کے کاموں کے قریب بھی نہ جانے کا حکم دیا ہے۔
حدیث ام حرام بنت ملحان
تفصیلی جواب
https://ilhaad.com/nabi-e-islam/ahtirazaat/hazrat-umm-e-haram-and-prophet/جواب کا خلاصہ یہ ہے
سارے اعتراضات کی بنیاد حضرت ام حرام کی حضور ﷺ کے ساتھ رشتہ داری کا علم نا ہونا ہے۔ ہم اسکی وضاحت کیے دیتے ہیں :
یہی مذکور روایت ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ ابن عساکر کی کتاب تاریخ دمشق میں بھی ہے ، اس میں حضرت انس کی واضح گواہی موجود ہے کہ کہ ام حرامؓ حضور ﷺ کی خالہ تھیں ۔ مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیے
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ رَأْسَهُ فِي بَيْتِ أُمِّ مِلْحَانَ ، وَهِيَ إِحْدَى خَالاتِهِ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَضَحِكَ ، فَقَالَتْ : مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ” أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يَرْكَبُونَ الْبَحْرَ الأَخْضَرَ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ ” ، قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ ، قَالَ : فَدَعَا اللَّهَ لَهَا أَنْ يَجْعَلَهَا مِنْهُمْ ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَفَعَهُ فَضَحِكَ ، فَقَالَتْ : مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ فِي الأَوَّلِ ، فَقَالَتْ : ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ ، قَالَ : ” أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ ، وَلَسْتِ مِنَ الآخِرِينَ ” ، قَالَ : فَتَزَوَّجَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بِنْتَ مِلْحَانَ ، فَرَكِبَ بِهَا الْبَحْرَ ، فَقَفَلَتْ ، فَلَمَّا كَانَتْ بِالسَّاحِلِ رَكِبَتْ دَابَّةً فَوُقِصَتْ فَصُرِعَتْ ، فَمَاتَتْ. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے گھر (آرام کیلئے ) لیٹے۔ ام حرامؓ حضور ﷺ کی خالہ تھیں۔ کچھ دیربعد نبی پاک ﷺ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ ام حرامؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ کس چیز نے آپ کو ہنسایا؟آپﷺ نے فرمایاکہ میری امت کے کچھ لوگ سمندر کی پشت پر بادشاہوں کی طرح تخت پر سوار ہوں گے۔ ام حرامؓ نے کہا کہ اے اللہ رسول!آپ میرےلیے دعا فرمائیں کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوجاؤں،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعافرمائی۔دوبارہ آپ ﷺ پھر سوگئے،پھر ہنستے ہوئے جاگےتو ام حرامؓ نے پوچھا یارسول اللہ آپ کیوں ہنسے ؟ آپ نے پہلے والی بات پھر ارشاد فرمائی۔ام حرام نے کہا یارسول اللہ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میں بھی ان میں شامل ہوجاؤں۔آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں تم پہلے فریق کے ساتھ ہو، دوسرے فریق کے ساتھ نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبادہ بن صامت ؓ نے ام حرامؓ سے نکاح کیا۔ ام حرامؓ کے ساتھ عبادہؓ نے سندری سفر کیا۔ پھر جب وہ ساحل پر پہنچیں تو سواری پر سوار ہوئیں، سواری بدکی، ام حرام ؓ گریں اور انتقال فرما گئیں۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر، حدیث 74127)جاوید احمد غامدی کی راے یہاں دستاب ہے
یوسف القراوی اور جاوید احمد غامدی کہ راے میں فرق یہ ہے کہ جاوید احمد غامدی مصافے کے ساتھ ساتھ محرم اور نا محرم کے کچھ حد تک بغل گیر ہونے اور مختلف ثقافتوں، مثالَ سعودی عرب، فرانس، اٹلی، نیدرلینذ اور بیلجیم میں راِیج گالوں کے قریب بھوسہ کرنے میں بھی کوِئئ مزایقہ نہیں سمجھتے۔
جاوید احمد غامدی کی راے محرم اور نا محرم کے کچھ حد تک بغل گیر ہونے کے بارے میں
جاوید احمد غامدی کی راے محرم اور نا محرم کےایک دوسرے کی گالوں کے قریب بھوسہ کرنے کے بارے میں
جاوید احمد غامدی کے تمام دلایل کا خلاصہ یہ ہے:
دیکھیئے جو آپ کے ہاں اچھی روایات ہیں ان کو آپ قائم رکھیں۔ لیکن فرض کر لیجئے آپ کسی جگہ گئے ہیں، آپ کے مخاطب کو یہ پتا نہیں، ایک رسمی سا معاملہ ہو گیا ہے، تو بدتمیزی بھی نہیں کرنی چاہئے۔ یعنی دونوں چیزوں میں توازن رلھنا چاہئے، آہستہ آہستہ جب آپ کی تہذیب سے، آپ کے معاملات سے لوگ واقف ہوں گے، وہ خود ہی فاصلہ قائم کر لیں گے، تو اچھی بات ہے آپ وہ فاصلہ قائم کریں، لیکن میں ایک اصولی بات کر رہا ہوں، یہ سب چیزیں رسمیات کی حد تک ممنوع نہیں ہیں، جب ان میں برے راستے کی طرف قدم بڑھتا ہے، پھر آپ اللہ کے سامنے جوابدہ بھی ہیں۔۔غامدی احمد غامدی کی راے کا جواب یہاں ہے
خلاصہ گفتگو
اسلام میں زنا بہت سنگین جرم ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان مصافحہ کی قرآن و سنت میں براہ راست اجازت یا ممانعت نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ وہ معاملہ ہے جہاں قرآن و سنت کی متعلقہ تعلیمات سے ہی حکم آنا چاہیے۔
ایسے معاملات سے متعلق کچھ رہنما اصول موجود ہیں۔ مثال کے طور پر درج ذیل آیات کو لے لیجئے جو خاص طور پر ایسے معاملات میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں
:سورۃ بنی اسرائیل (17:32):
“اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔”سورۃ الانعام (6:151):
“اور بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی نہ جاؤ، جو ان میں ظاہر ہوں یا چھپے ہوں۔سورۃ الاحزاب (33) آیت 21:
“بیشک تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔”سورۃ النساء (4) آیت 59:
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوںسورۃ النساء (4) آیت 69:
اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایااللہ اور رسول کی اطاعت کا اکٹھا حکم قرآن میں ارو بھی کئ جگہوں پر آیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی اسی طرح کی ہدایات ہیں:
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے ہوئے سنا -اور نعمان نے اپنی انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا-:
”یقیناً حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ چنانچہ جو شخص شبہ والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا، اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا، وہ حرام میں پڑ جائےگا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو کسی محفوظ چراہ گاہ کے اردگرد جانور چراتا ہے۔ ایسے میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ جانور اس چراگاہ میں سے بھی چر لے۔ سنو! ہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراہ گاہ ہوتی ہے (جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی)۔ آگاہ رہو! اللہ کی چراگاہ اس کى حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ جب وہ درست ہو جاتا ہے، تو سارا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے، تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ جان لو! وہ دل ہے۔“
[صحیح] – [متفق علیہ] – [صحيح مسلم – 1599]اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم چیزوں کے بارے میں ایک عام قاعدہ بتا رہے ہیں۔ آپ نے بتایا کہ شریعت میں چیزیں تین طرح کی ہیں۔ واضح حلال، واضح حرام اور ایسی مشتبہ چیزیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہ ہو اور جن کے شرعی حکم سے بہت سے لوگ واقف نہ ہوں۔
ایسے میں جس نے ان مشتبہ چیزوں کو چھوڑ دیا، اس کا دین حرام چیزوں میں پڑنے سے محفوظ رہے گا اور اس کی عزت وآبرو اس مشتبہ چیز میں ملوث ہونے کی وجہ سے لوگوں کی چہ می گوئیوں سے محفوظ رہے گى۔ اس کے برخلاف جس نے ان مشتبہ چیزوں سے اجتناب نہيں کیا، اس نے اپنے نفس کو یا تو حرام چیز میں پڑنے یا لوگوں کی چہ می گوئیوں کا سامنا کرنے کے لیے آگے کر دیا۔ اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مشتبہ کاموں کا ارتکاب کرنے والوں کی حالت بیان کرنے کے لیے ایک مثال دی اور بتایا کہ ایسے شخص کی مثال اس چرواہے کے جیسی ہے جو کسی کی محفوظ چراگاہ کے آس پاس اپنا جانور چراتا ہو۔ ایسے میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ محفوظ چراگاہ کے آس پاس چرنے کی وجہ سے اس کا جانور چراگاہ کے اندر چرنے لگے۔ بالکل ایسے ہی جو شخص کوئی شبہ والا کام کرے گا، وہ اپنے اس کام کی وجہ سے حرام کے قریب ہو جائے گا اور اس بات کا امکان بنا رہے گا کہ وہ حرام میں پڑ جائے۔ اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ دل کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے (یعنی دل)، جس کے درست ہونے سے جسم درست رہتا ہے اور جس کے بگڑنے سے جسم بگڑ جاتا ہے۔
وہ تمام معاملات جن میں مرد اور عورت کے معاشرتی معاملات کے بارے میں اسلام میں کوئی واضح حکم نہیں ہے، ایسے ہر سماجی معاملے کو حلال اور حرام کے درمیان سمجھا جائے اور حلال و حرام کی قربت کی بنیاد پر اس کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ دلیل کہ چونکہ مصافہ کے بارے میں خاص منع نہیں کیا گیا لہزا فقہ کے اصول کے مطابق ہر چیز حلال ہے جب تک منع نہ کی جاے۔ تو کیا اس دلیل کے مطابق محرم اور نامحرم کو مردوں کے طرح مکمل بغل گیر بلکہ ہونٹوں پر بھوسے کی بھی شریعت اچازت دیتی ہے کہ منع تو صرف بدکاری سے کیا گیا ہے۔ چیزوں کو انکے منسلک تمام احکامات کے تناطر میں دیکھا جاتا ہے۔
آئیے مرد اور عورت کے درمیان سماجی اختلاط کی مثالیں لیتے ہیں۔ ہاتھ ملانا، ایک دوسرے کی کمر کو ہاتھ سے چھونے کے لیے نیم گلے لگانا، قریب گالوں کو بوسہ دینا اور مکمل گلے لگانا۔ مرد اور عورت کے درمیان ان تمام چیزوں سے پرہیز کرنا صریح حلال ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کہ ایسی تمام چیزوں سے بچنا ایک حلال چیز پر عمل نہ کرنے کے برابر ہے۔ ان تمام چیزوں سے پرہیز کرنا، واضح طور پر حدِ حلال کے اندر رہنا ہے اور ان میں سے کسی بھی معاشرتی رویے پر عمل حلال اور حرام کی حدود کے درمیان ہے۔ آیات و حدیث کے مطابق کسی متشبہ چیز پر عمل اپنے آپ کو حرام میں شامل ہونے کے خطرے میں ڈالنا ہے۔ اسی لیے یہ آیات و احادیث ان چیزوں سے بھی دور رہنے کو کہتی ہیں جو حلال و حرام کے درمیان ہیں اور جو حرام کی طرف لے جا سکتی ہیں۔
حدیث میں چرواہے کی مثال دے کر مزید زور دیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے جانوروں کو اجازت دیے گئے علاقے سے باہر جانے دیتا ہے تو یہ بہت ممکن ہے کہ جانور ممنوعہ علاقے میں داخل ہوں جایں۔ حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر دل پاک ہے تو تمام معاملات درست اور حد کے اندر رہیں گے اور جب دل پاک نہ ہو تو جسم کو اس دلیل کے ساتھ حلال کی حد سے تجاوز کرنے دے گا کہ میں صریح حرم میں نہیں جاؤں گا لیکن جیسا کہ حدیث نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اس کا بہت زیادہ امکان ہے کہ ایسے کسی عمل کا اختتام حرام میں ہی ہو۔
نیت چاہے جتنی بھی اچھی ہو اور دل میں چاہے کوِئئ برا خیال بھی نہ ہو لیکن اس امر کی کوی ضمانت نہیں کہ غیرمحرم ہے مصافہ کے بعد نیت اور دل کی پاکیزگی برقرار رہے گی۔ اسی لیے افصل یہ ہے کہ مصافہ جیسی مشتنہ چیزوں سے بھی اجتناب کیا جاے۔
جہاں تک جاوید احمد غامدی کی مہذب طریقے سے گلے ملنے اور ثقافتی طور پر بھوسہ کرنے کے عمل پر راے ہے تو اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ افعال مصافہ کرنے کے مقابلے میں حرام کی حدود کے مزید قریب ہیں۔
00-
This topic was modified 1 month ago by
Big Man.
-
This topic was modified 1 month ago by
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.